Menu

A+ A A-

تصوّف اور وحدت الوجود شیخ الاکبر اور اقبال کی نظر میں

ڈاکٹر وحید عشرت
اقبالیات جولائی تا ستمبر ۲۰۰۱

 

علامہ اقبال تصوف ، وحدت الوجود اور شیخ الاکبر کے بارے میںاپنی ایک رائے رکھتے تھے جو مختلف ادوار میں مختلف رہی، شروع میں علامہ تصوف کے پرستار تھے ۔قیام یورپ سے واپسی کے بعد انہوں نے عجمی تصوف اور وحدت الوجود پر کڑی تنقید کی اور آخری عمر میں وہ پھر سے تصوف کی طرف مراجعت کرتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔ ڈاکٹر عشرت انور لکھتے ہیں:

’’یوں معلوم ہوتا ہے کہ اقبال کی فکر دو منازل سے گزری ، ماقبل وجدانی اور وجدانی ۔ پہلی منزل میں وہ اُس روایتی طرز فکر کا اتباع کرتے ہیں جو ہمہ اوستی یا وحدت الوجودی تصورات سے قریبی تعلق رکھتا تھا اور اس دور کے شکستہ و متزلزل مسلم معاشرے کو بہت اپیل کرتا تھا لیکن یورپ کے سفر نے ان کے حوصلے اور فکر کو نئی توانائی اورا ن کے عزم کو نئی قوت بخشی ، ان میں ایک سیاسی رد عمل پیدا ہوا، اب وہ انفعالیت ، سکون وجمود اور نفی ٔ ذات کے بجائے فعالیت، عمل اور اظہار ذات پر زور دینے لگے ۱‘‘ ۔

 اسرار خودی کی اشاعت تک اقبال وجودی تصوف سے وابستہ رہے اور اپنے افکار کی اساس نظریہ وحدت الوجود پر رکھی حتیٰ کہ ایک طالب علم کی حیثیت سے قیام یورپ کے دوران بھی وہ مولانا جلال الدین رومی اور منصور حلاج کے روایتی نظریہ وحدت الوجود کا اتباع کرتے نظر آتے ہیں لیکن یورپ سے واپسی پر انہوں نے محسوس کیا کہ وحدت الوجود فکر رومی کا ایک رخ ہے اور پھر انہوں نے رومی کو پُر تپاک طور پر عقیدہ وحدت الوجود کے نمائندے کی حیثیت میں پیش نہ کیا بلکہ ذاتِ خداوند اور انسان کے درمیان والہانہ عشق کے پُر جوش نقیب کی حیثیت سے پیش کرنا شروع کر دیا۔ حلاج کے بارے میں بھی ان کے نظریے میں تبدیلی آ چکی تھی ۲ ‘‘۔

علامہ کا ابتدائی طبعی میلان تصوف کی طرف تھا۔ تصوف کو سمجھنے کے لیے انہوں نے اپنے معاصر مشاہیر سے رابطے بھی کیے خواجہ حسن نظامی کے نام ایک مکتوب محررہ ۱۹۰۵ء میں علامہ ، تصوف اور وحدت الوجود کے بارے میں جاننے کا اشتیاق ظاہر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’ایک خط پہلے ارسال کر چکا ہوں اور بڑی شدت کے ساتھ اب ایک اور تکلیف دیتا ہوں اور وہ یہ کہ قرآن شریف میں جس قدر آیات صریحاً تصوف کے متعلق ہیں ان کا پتہ دیجیے ، سیپارہ اور رکوع کا پتہ لکھیے ۔ اس بارے میں آپ قاری شاہ سلیمان صاحب یا کسی اور صاحب سے مشورہ کر کے مجھے بہت جلد مفصل جواب دیں ۔ اس مضمون کی سخت ضروررت ہے اور یہ گویا آپ کا کام ہے ۔ شاہ سلیمان صاحب کی خدمت میں میرا یہی خط بھیج دیجیے اور بعد التماس دعا کیجیے کہ میرے لیے زحمت گوارا کریں اور مہربانی کر کے مطلوب قرآنی آیات کا پتہ دیویں ۔اگر قاری صاحب موصوف کو یہ ثابت کرنا ہو کہ مسئلہ وحدت الوجود یعنی تصوف کا اصل مسئلہ قرآن کی آیات سے نکلتا ہے اور کون کون سی آیات پیش کر سکتے ہیں کہ تاریخی طور پر اسلام کو تصوف سے تعلق ہے کیا حضرت علی مرتضیٰ ؓ کو کوئی خاص پوشیدہ تعلیم دی گئی تھی؟ غرض اس امر کا جواب معقول اور منقول اور تاریخی طور پر مفصل چاہتا ہوں ۔ میرے پاس کچھ ذخیرہ اس امر کے متعلق موجود ہے مگر آپ سے اور قاری صاحب سے استفسار ضروری ہے ۔ آپ اپنے کسی اور صوفی دوست سے بھی مشورہ کر سکتے ہیں ۳ ‘‘ ۔

یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ اس وقت تک علامہ صاحب وحدت الوجود اور تصوف کو مترادف ہی سمجھتے تھے جیسا کہ خط کے مضمون سے عیاں ہے۔ بعد میں کیا ہوا؟ علامہ مغربی فلسفہ کے زیر اثر اور کچھ رہبانیت کے مضر اثرات کے ساتھ ساتھ اپنے فلسفہ حرکت و عمل اور اسرار خودی کے جواز میں تصوف کی مخالفت کرتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔ انہیں دراصل اس بات کا افسوس تھا کہ متصوفین نے تصوف کو خراب کیا اور شریعت کے حامیوں نے اس کی وسعت ، حکمت اور جمال کو مسخ کیاا ور رہی سہی کسر متکلمین نے نکال دی انہوں نے تو اسے عجمی اور یونانی افکار کا گورکھ دھندہ بنا کر رکھ دیا   ؎

تمدن ، تصوف ، شریعت ، کلام

 بُتانِ عجم کے پجاری تمام

حقیقت خرافات میں کھو گئی

 یہ امت روایات میں کھوگئی

وہ صوفی کہ تھا خدمت حق میں مرد

 محبت میں یکتا حمیت میں فرد

عجم کے خیالات میں کھو گیا

 یہ سالک مقامات میں کھو گیا

بجھی عشق کی آگ اندھیر ہے

 مسلماں نہیں راکھ کا ڈھیر ہے

وہ مسخ شدہ تصوف اور صوفیائے خام کے خلاف تھے۔ وہ اس تصوف کے خلاف تھے جس کا خمیر عجمی خیالات و فلسفے کے آمیزش سے تیار کیا گیا تھا۔ اپنے ایک مقالے  سر اسرار خودی میں علامہ رقمطراز ہیں:

’’عجمی تصوف (عجمی اس واسطے کہ اس کی تدوین کرنے والوں میں بیشتر عجمی تھے) جزو اسلام نہیں یہ ایک قسم کی رہبانیت ہے جس سے اسلام کو قطعاً تعلق نہیں اور جس کے اثر سے اسلامی اقوام میں سے قوت عمل مفقود ہو گئی ہے ۔ تصوف کا تو لفظ بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں موجود نہ تھا۔ ۱۵۰ھ میں یہ لفظ پہلے پہل استعمال میں آیا اور رفتہ رفتہ تصوف کے عجمی حامیوں نے ایک ایسا اخلاقی اور معاشرتی نصب العین پیدا کر دیا جو آخر کار مسلمانوں کی بربادی کا باعث ہوا یا کم ازکم اور بواعث میں ایک باعث یہ بھی تھا ۴ ‘‘۔

انہوں نے تصوف یا وحدت الوجود کی جس تعبیر کے خلاف صدائے احتجاج بلند کی وہ غیر اسلامی یا ویدانتی تصوف تھا ۔ ۱۹؍جولائی ۱۹۱۴ء کو منشی سراج الدین کو لکھتے ہیں:

’’تصوف کا سب سے پہلا شاعر عراقی ہے جس نے ’’لمعات ‘‘ میں فصوص الحُکم کی تعلیمات کو نظم کیا ہے ۔ جہاں تک مجھے علم ہے ’’فصوص ‘‘ میں سوائے زندقہ اور الحاد کے اور کچھ نہیں، اس پر ان شاء اللہ میں مفصل لکھوں گا اور سب سے آخری شاعر حافظ ہے (اگر اُسے صوفی سمجھا جائے) ۔

یہ حیرت کی بات ہے کہ تصوف کی تمام شاعری مسلمانوں کے پولیٹیکل انحطاط کے زمانے میں پیدا ہوئی ہے اور ہونا بھی یہی چاہیے تھا ۔ جب قوم میں طاقت اور توانائی مفقود ہو جائے جیسا کہ تاتاری یورش کے بعد مسلمانوں میں مفقود ہو گئی تھی تو پھر اس قوم کا نقطہ نگاہ بدل جایا کرتا ہے ان کے نزدیک ناتوانی ایک حسین و جمیل شے ہو جاتی ہے اور ترکِ دنیا وجہ تسکین ۔ اس ترکِ دنیا کے پردے میں قومیں اپنی سستی و کاہلی اور اُس شکست کو جو ان کو تنازع للبقا میں چھپایا کرتی ہیں خود ہندوستان کے مسلمانوں کو دیکھیے ان کی ادبیات کا انتہائی کمال لکھنؤ کی مرثیہ گوئی پر ختم ہوا ۵ ‘‘ ۔

مولانا اسلم جیراج پوری کے نام ایک خط (۱۷؍ مئی ۱۹۱۹ئ) میں لکھتے ہیں:

’’ سرچشمۂ اسلام یعنی قرآن و حدیث تصوف کے لفظ تک سے نا آشنا ہیں ۔ یہ لفظ دوسری صدی ہجری میں عربی زبان میں داخل ہوا۔۔۔ تاریخ اسلام سے معلوم ہوتاہے کہ ابتدا میں جو لوگ تارک الدنیا اور گوشہ گیر ہو کر عبادت اور ریاضت میں مصروف رہتے تھے ان کو عام لوگ صوفی کے لقب سے پکار نے لگے ۔ اس زمانے میں تصوف ’’اخلاص‘‘ کا نام تھا جس کو حدیث شریف میں ’’احسان ‘‘ کے لفظ سے تعبیر کیا گیا ہے اور یہی وہ تصوف ہے جس کی مدح غزالی وغیرہ آئمہ اسلام نے لکھی ہے ۶ ‘‘۔

اپنے ایک مضمون ’’اسرار خودی اور تصوف ‘‘ میں علامہ لکھتے ہیں :

’’مجھے اس امر کا اعتراف کرنے میں کوئی شرم نہیں کہ میں ایک عرصہ تک ایسے عقائد و مسائل کا قائل رہا جو بعض صوفیہ کے ساتھ خاص ہیں اور جو بعد میں قرآن شریف پر تدبر کرنے سے قطعاً غیر اسلامی ثابت ہوئے ۔ مثلاً شیخ محی الدین ابن عربی کا مسئلہ قدم ارواح کملا ، مسئلہ وحدت الوجود یا مسئلہ تنزلات ستہ یا دیگر مسائل جن میں بعض کا ذکر عبدالکریم جیلی نے اپنی کتاب انسان کامل  میں کیا ہے ۔

مذکورہ بالا تینوں مسائل میرے نزدیک مذہب اسلام سے کوئی تعلق نہیں رکھتے ۔ گو میں ان کے ماننے والوں کو کافر نہیں کہہ سکتا کیونکہ انہوں نے نیک نیتی سے ان مسائل کا استنباط قرآن شریف سے کیا ہے ۷ ‘‘۔

ایک زمانہ تھا جب اقبال بھی صوفیوں کے تصور وحدت الوجود سے متاثر تھے اور انسانی روح کے فراق زدہ ہونے پر اعتقادات رکھتے تھے مگر بعد میں رفتہ رفتہ ان کا یہ عقیدہ جاتا رہا اور خودی کی تنظیم میں مادیت کے مستقل وجود کی اہمیت کو تسلیم کرنے لگ گئے تاہم بعد میں ان کے اشعار میں صوفیوں کے احساسِ جدائی کا تصور کہیں کہیں نظر آ جاتا ہے ۸ ۔

ان کے ابتدائی دور کا یہ شعر دیکھیں جس میں وہ وحدت الوجود کو بڑے خوبصورت پیرائے میں بیان کرتے ہیں   ؎

کمالِ وحدت عیاں ہے ایسا کہ نوک نشتر سے تو جو چھیڑے

یقیں ہے مجھ کو گرے رگِ گُل سے قطرہ انسان کے لہو کا

وحدت الوجود کے بارے میں انہوں نے معاصر علما اور خاص طور پر سید سلیمان ندویؒ سے متعدد استفسارات کیے ۔ سید صاحب کے جواب پر علامہ ایک حد تک مطمئن ہو گئے تھے یہی وجہ ہے کہ آخری ایّام میں وہ اسلامی تصوف اور وحدت الوجود کے قائل ہوگئے ۔ وحدت الوجود کے سلسلے کی وضاحت کرتے ہوئے سید سلیمان ندوی علامہ صاحب کو لکھتے ہیں:

’’وحدت الوجود کے باب میں آپ نے کئی دفعہ پوچھا ۔ وحدت الوجود کی کئی تشریحات ہیں اور ان کے اختلافِ معنی کی بنا پر حکم بدل جاتا ہے۔ انہی میں ایک وہ ہے جس کو جاہل صوفیہ مانتے ہیں جس کا حاصل یہ ہے کہ خالق اور مخلوق کے درمیان فرق اعتباری رہ جائے بلکہ ہر مخلوق کو دعویٰ خالق ہو جائے یہ تمام تر کفر ہے اور اس کا مآخذ نو فلاطونیت معلوم ہوتی ہے اور ہندوئوں کا فلسفہ بھی اسی قبیل کا ہے۔ ہندوستان میں یہ مسئلہ مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی  ؒکی روایت کے مطابق آٹھویں صدی ہجری میں آیا ورنہ حضرات چشت کے کلام میں حضرت سلطان الہند خواجہ معین الدین چشتی سنجریؒ سے لے کر حضرت سلطان الاولیاء نظام الدینؒ کے ملفوظات میں اس کا ذکر نہیں آیا۔ حضرت مجددالف ثانی  ؒ، شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ ، مولانا اسماعیل شہید و غیرہ وحدت الوجود یا وحدت الشہود کی جو تشریح کرتے ہیں اس کا مقصد مسئلہ قیومیت کی تفصیل ہے۔ ’’انت قیوم السمٰوٰت والارض و من فیھن ‘‘حدیث صحیح میں وارد ہے اور اس کی تشریح بر مذاق وحدت الوجود یہ ہے کہ ساری مخلوقات اپنے وجود و بقا میں ہر آن اللہ تعالیٰ کی محتاج ہیں، جس طرح وہ اپنے خلق میں محتاج نہیں ۔۔۔’’ انتم الفقرا ‘‘ سے ثابت ہوتا ہے کہ ہماری حقیقت فقر محض ہے اور ’’اللہ ھوالغنی ‘‘ سے ظاہر ہے کہ وہی غنی ہے۔فقر کے دوسرے معنی عدم کے ہیں ۔ ہماری حقیقت عدم ہے ، جس میں وجود یا کسی صفت کی نیرنگی اسی ذاتِ غنی کی صفات کے ظلال ہیں۔ ظل (سایہ) کی حقیقت عدم ہی ہے ۔ عدم نور کا نام ظل ہے تاہم کسی ظل کا وجود اصل کے بغیر نہیں ہوتا اس لیے ظل کا وجود اپنی ذات میں ہم معنی عدم ہے لیکن اصل کے پرتو سے وجود کا ایک وہمی نقش پالیتا ہے ۔ یہ ان حضرات کا وحدت الوجود ہے ۔ گو کہ ہمارے نزدیک حضرت مجدد صاحب کا یہ مسلک ، اخیر مسلک نہیں۔ اخیر مسلک وہی وحدت تنزیہ ہے جس پر شرع وارد ہے ۔ ہمارے حضرات کے یہاں وحدت الوجود کا تصور ایک حالی کیفیت ہے جِس کی نظر میں اللہ تعالیٰ محبت و عظمت و جلالت یوں چھا جائے کہ ساری مخلوقات اس کی نگاہوں سے چھپ جائے جیسے آفتاب کے طلوع سے سارے ستارے چھپ جاتے ہیں مگر معدوم نہیں ہوتے جیسے مجنوں کا یہ قول تمثل بی لیلیٰ بکل سبیل ۔

جس وحدت الوجود کو ہم نے فلاسفۂ افلاطونی خیال کیا ہے یا ہندوئوں سے ماخوذ بھی بتایا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ ذات الٰہی ہی پھیل کر عالم بن گئی ہے جیسے انڈا پھٹ کر چوزہ بن جاتا ہے ۹ ‘‘۔

پروفیسر یوسف سلیم چشتی کے مطابق اگر وحدت الوجود کا مفہوم یہ قرار دیا جائے کہ

(الف) ۔خدا کے علاوہ انسان بھی موجود ہے لیکن اس کا وجود ظلی ہے ، اصلی نہیں ، قائم بالذات نہیں

(ب) ۔انسان کا مقصودِ حیات یہ ہے کہ وہ اپنی انفرادی ہستی کو برقرار رکھے لیکن اپنے اندر خدائی صفات کا رنگ پیدا کرے ( جس طرح لوہا اپنے اندر آگ کے خواص پیدا کر لیتا ہے)

(ج) ۔خدا اور انسان میں بلحاظِ ذات ، مغائرت پائی جاتی ہے یعنی بندہ لاکھ ترقی کرے مگر خدا نہیں بن سکتا ۔ خدا ، خدا ہے اور بندہ ، بندہ ہے ۔

تو اقبال اس وحدت الوجود کے قائل ہیں اور ان کا سارا کلام پیام مشرق سے کر ارمغانِ حجاز تک اس پر شاہد و عادل ہے ۱۰ ۔

وہ کسی نہ کسی رنگ میں وجودی بہرحال تھے ۔ ملاحظہ ہوں حسب ذیل اشعار   ؎

صیاد آپ، حلقۂ دام ستم بھی آپ

 بام حرم بھی، طائر بام حرم بھی آپ

حسنِ ازل کی پیدا ہر چیز میں جھلک ہے

 انساں میں وہ سخن ہے غنچے میں وہ چٹک ہے

کثرت میں ہو گیا ہے وحدت کا راز مخفی

 جگنو میں جو چمک ہے وہ پھول میں مہک ہے

۱۹۰۵ء میں اقبال یورپ گئے ۔ وہاں انہوں نے ایرانی فلسفہ اور تصوف کا مطالعہ کیا۔ ایران میں مابعد الطبیعیات کا ارتقا پر مقالہ لکھا ۔ اس میں انہوں نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ قرآن حکیم میں بعض آیات ایسی ہیںجن سے وحدت الوجود کا عقیدہ مستنبط ہو سکتا ہے ۔ لیکن اس بات کی وضاحت نہیں کی کہ اس عقیدہ کی کون سی تعبیر لائق قبول ہے ۔ ہمہ اوست یا ہمہ از اوست ۔ علامہ لکھتے ہیں:

’’ میرے خیال میں یہ ثابت کیا جا سکتا ہے کہ قرآن و احادیث صحیحہ میں صوفیانہ نظریہ کی طرف اشارات موجود ہیںلیکن وہ عربوں کی خالص عملی ذہانت کی وجہ سے نشو و نما پاکر بارآور نہ ہو سکے، جب ان کو غیر ممالک میں موزوں حالات میسر آگئے تو وہ ایک جداگانہ نظریہ کی صورت میں جلوہ گر ہوئے ۔ قرآن نے ایک مسلم کی حسب ذیل تعریف کی ہے،

وَ فیِ الاَرضِ اٰیَات’‘ لِلمُؤقِیننَ۰وَ فیِ اَنْفُسِکُم اَفَلاَ تُبْصِرُونَ ۰

(سورۃ الزاریات ۲۰،۲۱) ۔ اور پھر کہا ہے وَ نَحنُ اَقْرَبَ الَیہِ مِن حَبْل الوَریْد۰(سورہ ق ۔۱۵) اسی طرح قرآن کی تعلیم ہے کہ اس ’’غیب ‘‘ کی اصلی ماہئیت خالص نور ہے اَللّٰہُ نُوْرُالسَّمٰوٰاتِ وَالْاَرضِ (سورہ طور ۔ ۳۵)

اس سوال کے متعلق کہ آیا نور اولیٰ شخصی ہے ۔ قرآن نے شخصیت کے تصور کو مختلف عبارتوں میں پیش کرنے کے باوجود مختصر الفاظ میں یہ جواب دیا ہے کہ لَیْسَ کَمِثٰلہٖ شیٔ’‘ (سورہ شوریٰ :۹ )

یہ چند خاص آیات ہیں جن کی بنا پر صوفی مفسرین نے کائنات کے ایک وحدت الوجودی نقطۂ نظر کو نمو دیا ہے ۱۱ ‘‘۔

اس زمانے میں جو نظمیں انہوں نے لکھیں ان میں بھی وحدت الوجود کا رنگ موجود ہے مثلاً

تارے میں وہ ، قمر میں وہ جلوہ گرِ سحر میں وہ

چشم نظارہ میں نہ تو سرمۂ امتیاز دے

چمک تیری عیاں بجلی میں آتش میں شرارے میں

جھلک تیری ہویدا چاند میں سورج میں تارے میں

بلندی آسمانوں میں زمینوں میں تری پستی

روانی بحر میں افتادگی تیری کنارے میں

۱۹۰۸ء سے لے کر ۱۹۱۳ء تک انہوں نے اس مسئلہ پر غور کیا اور وہ اس نتیجہ پر پہنچے کہ عجمی تصوف یا وحدت الوجود کی غیر اسلامی تعبیر نے مسلمانوں میں رہبانیت کا رنگ پیدا کر دیا جس کی وجہ سے ان کی قوتِ عمل مردہ ہو گئی چنانچہ انہوں نے اسرار خودی میں اس غیر اسلامی تصوف کے خلاف صدائے احتجاج بلند کی ۔ ۱۹۰۸ء سے لے کر ۱۹۲۲ء تک انہوں نے جس قدر نظمیں لکھیں (اور وہ سب کی سب بانگ درا میں موجود ہیں) کسی میں بھی وحدت الوجود کا رنگ نہیں۔ علامہ کے تصوف اور وحدت الوجود کے موافق یا مخالف ہونے کی بحث اس وقت شروع ہوئی جب انہوں نے اسرار خودی کے پہلے ایڈیشن میں وحدت الوجود اور بالخصوص حافظ شیرازی کے نظریۂ حیات پر سخت تنقید کی تھی۔ حافظ کو تو صوفیہ میں شمار کیا جاتا تھا اور انہیں لسان الغیب کے لقب سے یاد کیا جاتا تھا ۔

اسرار خودی کے دیباچہ میں علامہ نے شنکر اور شیخ الاکبر کونہ صرف ہم خیال گردانا بلکہ وحدت الوجود کو عالم اسلام کے لیے ذوق عمل سے محرومی کی وجہ قرار دیا ۔ لکھتے ہیں:

’’مسئلہ انا کی تحقیق و تدقیق میں مسلمانوں اور ہندوئوں کی ذہنی تاریخ میں ایک عجیب و غریب مماثلت ہے اوروہ یہ کہ جس نکتۂ خیال سے شری شنکر نے گیتا کی تفسیر کی اُسی نکتۂ خیال سے شیخ محی الدین ابن عربی اندلسی نے قرآن شریف کی تفسیر کی جس نے مسلمانوں کے دل و دماغ پر نہایت گہرا اثر ڈالا ہے ۔

شیخ اکبر کے علم و فضل اور ان کی زبردست شخصیت نے مسئلہ وحدت الوجود کو جس کے وہ ان تھک مفسر تھے اسلامی تخئیل کا ایک لاینفک عنصر بنا دیا ۔ اوحد الدین کرمانی اور فخر الدین عراقی ان کی تعلیم سے نہایت متاثر ہوئے اور رفتہ رفتہ چودہویں صدی کے تمام عجمی شعرا اس رنگ میں رنگین ہو گئے ۔ ایرانیوں کی نازک مزاج اور لطیف الطبع قوم اس طویل دماغی مشقت کی کہاں متحمل ہو سکتی تھی جو جزو سے کل تک پہنچنے کے لیے ضروری ہے ۔ انہوں نے جزو اور کل کا دشوار گزار درمیانی فاصلہ تخئیل کی مدد سے طے کر کے’’ رگِ چراغ‘‘ میںخونِ آفتاب کا اور شرار سنگ میں جلوئہ طور کا بلا واسطہ مشاہدہ کیا ۔

مختصر یہ کہ ہندو حکما نے مسئلہ وحدت الوجود کے اثبات میں دماغ کو اپنا مخاطب کیا مگر ایرانی شعرا نے اس مسئلے کی تفسیر میں زیادہ خطر ناک طریق اختیار کیا یعنی انہوں نے دل کو اپنا آماجگاہ بنایا اور ان کی حسین و جمیل نکتہ آفرینیوں کا آخر کار یہ نتیجہ ہوا کہ اس مسئلے نے عوام تک پہنچ کر قریباً تمام اسلامی اقوام کو ذوقِ عمل سے محروم کر دیا ۱۲ ‘‘ ۔

علامہ نے حافظ کے خلاف ۳۵ اشعار لکھے تھے ۔ مندرجہ ذیل پانچ اشعار کے اسلوب اور لہجہ سے وہ تندی اور تلخی عیاں ہو جاتی ہے جو باعث نزع ہوئی ۔

ہوشیار از حافظ صہبا گسار

 جامش از زہر اجل سرمایہ دار

آں فقیہہ ملت مے خوارگاں

 آں امام امت بے چارگاں

بگذر از جامش کہ درمینائے خویش

 چوں مریدانِ حسن دارد حشیش

محفل او در خود ابرار نیست

 ساغر او قابل احرار نیست

بے نیاز از محفل حافظ گزر !

 الحذر از گو سفنداں ، الحذر !

اسرار خودی شائع کیا ہوئی کہ ایک ہنگامہ کھڑا ہو گیا ۔ اقبال کی تصوف اور حافظ دشمنی پر ہر طرف سے تنقیدہونے لگی ۔ علامہ کی مخالفت کرنے والوں میں خواجہ حسن نظامی اور پیر زادہ مظفر احمد پیش پیش تھے ۔ خواجہ صاحب نے اپنے ہفتہ وار رسالیخطیب میں اس مثنوی کی مخالفت میں مضامین کا سلسلہ شروع کیا اور پیرزادہ صاحب نے تردید میں ایک مثنوی راز بے خودی شائع کی ۔خواجہ حسن نظامی نے اکبر الہ آبادی کو بھی اپناہمنوا بنا لیا ۔ اکبرالہ آبادی نے مولانا عبدالماجد دریابادی کو لکھے گئے خطوط میں کئی جگہ علامہ پر تعریض کی۔ چند مثالیں ملاحظہ کریں:

’’حضرت اقبال ، معلوم نہیں کیوں تصوف کے پیچھے پڑے ہیں‘‘ (۶؍اگست ۱۹۱۷ئ)

اقبال صاحب کو آج کل تصوف پر حملے کا بڑا شوق ہے ، کہتے ہیں کہ عجمی فلاسفہ نے عالم کو خدا قرار دے رکھا ہے اور یہ بات غلط ہے ، خلافِ اسلام ہے (یکم ستمبر ۱۹۱۷ئ)

اقبال صاحب نے جب سے حافظ شیرازی کو علانیہ برُا کہا ہے میری نظر میں کھٹک رہے ہیں ۔ ان کی مثنوی اسرار خودی آپ نے دیکھی ہو گی ۔ اب رموز بے خودی شائع ہوئی ہے۔میں نے نہیں دیکھی ۔ دل نہیں چاہا (۱۱؍جون ۱۹۱۸ئ)

۱۱؍جنوری ۱۹۱۹ء کو خواجہ حسن نظامی کو لکھتے ہیں :

’’حضرت اقبال نے میرے نزدیک تمہید (دیباچہ اسرار خودی) میں احتیاط نہیں کی اور ایک بڑا مجموعہ دلوں کا مایوس و مغموم ہوگا لیکن اب وہ سنبھل کر مسئلہ وحدت الوجود اور مسئلہ رہبانیت پر گفتگو کریں گے ‘‘

اسی زمانے کے اکبرکے یہ اشعار بھی مشہور ہوئے   ؎

حضرت اقبال اور خواجہ حسن

 پہلوانی ان میں، اُن میں بانکپن

جب نہیں ہے زور شاہی کے لیے

 آئو گتھ جائیں خدا ہی کے لیے

ورزشوں میں کچھ تکلف ہی سہی

 ہاتھا پائی کو تصوف ہی سہی

ہست در ہر گوشۂ ویرانہ رقص

 می کند دیوانہ با دیوانہ رقص۱۳

علامہ نے اس سلسلہ میں اپنی پوزیشن کی وضاحت کے لیے اکبر الہ آبادی ، خواجہ حسن نظامی اور دیگر مشاہیر کو خطوط لکھے ۔ مہاراجہ سر کشن پرشاد کو لکھتے ہیں:

’’۲۰؍جنوری ۱۹۱۸ء ۔۔۔۔ میں نے دو سال کا عرصہ ہوا تصوف کے بعض مسائل سے کسی قدر اختلاف کیاتھا اور وہ اختلاف ایک عرصہ سے صوفیائے اسلام میں چلا آتا ہے۔ کوئی نئی بات نہ تھی مگر افسوس ہے کہ بعض نا واقف لوگوں نے میرے مضامین کو (جو مثنوی میں لکھے ہیں) تصوف دشمنی پر محمول کیا ۔ میں نے اپنی پوزیشن محض اس لیے واضح کی ہے کہ خواجہ صاحب (خواجہ حسن نظامی) نے مثنوی پر اعتراض کئے تھے ۔ چونکہ میرا عقیدہ تھا اور ہے کہ اس مثنوی کا پڑھنا، اس ملک کے لوگوں کے لیے خصوصاً مسلمانوں کے لیے مفید ہے اور اس بات کا اندیشہ تھا کہ خواجہ صاحب کے مضامین کا اثر اچھا نہ ہو گا اس واسطے مجھے اپنی پوزیشن واضح کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی ۱۴ ‘‘ ۔

اکبر الٰہ آبادی کو لکھتے ہیں:

۱۱؍جون ۱۹۱۸ء ۔۔۔ مخدومی ! السلام علیکم ،

کل اور آج دو اور خط آپ کے موصول ہوئے ۔ میں نے خواجہ حافظ پر کہیں یہ الزام نہیں لگایا کہ ان کے دیوان سے میکشی بڑھ گئی ۔ میرا اعتراض حافظ پر بالکل اور نوعیت کا ہے۔ اسرار خودی میں جو کچھ لکھا گیاوہ ایک لڑیری نصب العین کی تنقید تھی جو مسلمانوں میں کئی صدیوں سے پاپولر (مقبول ) ہے ۔ اپنے وقت میں اس نصب العین سے ضرور فائدہ ہوا لیکن اس وقت یہ غیر مفید ہی نہیں بلکہ مضر ہے۔ خواجہ حافظ کی ولائت سے اس تنقید میںکوئی سروکار نہیں تھا، نہ ان کی شخصیت سے نہ ان کے اشعار میں۔ مئے سے مراد وہ مئے ہے جو لوگ ہوٹلوں میں پیتے ہیں بلکہ اس سے وہ حالتِ سُکر مراد ہے جو حافظ کے کلام سے پیدا ہوتی ہے۔

میں پہلے لکھ چکا ہوںکہ کون سا تصوف میرے نزدیک قابلِ اعتراض ہے ، میں نے جو کچھ لکھا ہے وہ کوئی نئی بات نہیں ہے ۔ مجھ سے پہلے حضرت علائوالدولہ سنجانی یہی بات لکھ چکے ہیں ۔ حضرت جنید بغدادی لکھ چکے ہیں ۔ میں نے تو شیخ محی الدین ابن عربی اور منصور حلاج کے متعلق وہ الفاظ نہیں لکھے جو حضرت سنجانی اور جنید نے ان بزرگوں کے متعلق ارشاد فرمائے ہیں، ہاں میں نے ان کے عقائد اور خیالات سے بیزاری ضرور ظاہر کی ہے۔ معاف کیجیے ، مجھے تو آپ کے خطوط سے یہ معلوم ہوا ہے کہ آپ نے مثنوی اسرار خودی کے وہی اشعار دیکھے ہیں جو حافظ کے متعلق لکھے گئے،باقی اشعار پر نظر نہیں فرمائی ۔ کاش آپ کو ان کو پڑھنے کی فرصت مل جاتی تاکہ آپ ایک مسلمان پر بدظنی کرنے سے محفوظ رہتے ۔

عجمی تصوف سے لٹریچر میں دلفریبی اور حسن تو پیدا ہوتا ہے لیکن ایسا کہ طبائع کو پست کرنے والا ، اس کے برعکس اسلامی تصوف دل میں قوت پیدا کرتا ہے۔ اس قوت کا اثر لٹریچر پر ہوتا ہے ۔ میرا تو یہی عقیدہ ہے کہ مسلمانوں کا لٹریچر تمام مالک اسلامیہ میں قابلِ اصلاح ہے۔ قنوطی لٹریچر کبھی دنیا میں زندہ نہیںر ہ سکا ، قوم کی زندگی کے لیے اس کا اور اس کے لٹریچر کا رجائی ہونا ضروری ہے۱۵‘‘۔

علامہ نے خواجہ حسن نظامی کو بھی تصوف ، حافظ شیرازی ، وحدت الوجود اور شیخ الاکبر کے بارے میں اپنے مؤقف کی وضاحت کے لیے متعدد خطوط لکھے ۔ ان میں سے ایک خط (۳۰؍ستمبر ۱۹۱۵ئ) تو تاریخی اہمیت کا حامل ہے ۔ اس میں گویا انہوں نے حقائق و معارف کے دریا بہا دیئے ، لکھتے ہیں :

مخدومی خواجہ صاحب ! السلام علیکم

آپ کا والا نامہ ملا۔ آپ کی علالت کا حال معلوم کرکے تردد ہوتا ہے ، اللہ تعالیٰ صحتِ عاجل عطا فرمائے۔ مجھے خوب معلوم ہے کہ آپ کو اسلام اور پیغمبر اسلام  ﷺ سے عشق ہے، پھر یہ کیونکر ممکن ہے کہ آپ کو ایک اسلامی حقیقت معلوم ہو جائے اور آپ اس سے انکار کریں ؟ بلکہ مجھے ابھی سے یقین ہے کہ بالآخر آپ میرے ساتھ اتفاق کریں گے ۔ میری نسبت بھی آپ کو معلوم ہے۔ میرا فطری اور آبائی میلان تصوف کی طرف ہے اور یورپ کا فلسفہ پڑھنے سے یہ میلان اور بھی تیز ہو گیا تھا۔ کیونکہ یورپین فلسفہ بحیثیت مجموعی وحدت الوجود کی طرف رُخ کرتا ہے مگر قرآن میں تدبر کرنے اور تاریخ اسلام کا بغور مطالعہ کرنے سے مجھے اپنی غلطی کا احساس ہو گیا اور میں نے محض قرآن کی خاطر اپنے قدیم خیال کو ترک کر دیا اور اس مقصد کے لیے مجھے اپنے فطری اور آبائی رجحانات کے ساتھ ایک خوفناک دماغی اور قلبی جہاد کرنا پڑا۔

رہبانیت اور اسلام پر مضمون ضرور لکھوں گا لیکن آپ کے مضمون کے بعد ۔ رہبانیت عیسائی مذہب کے ساتھ خاص نہیں ہے بلکہ ہر قوم میںپیدا ہوئی ہے اور ہر جگہ اس نے قانون شریعت کا مقابلہ کیا ہے اور اس کے اثر کو کم کرنا چاہا ہے۔ اسلام در حقیقت اسی رہبانیت کے خلاف ایک صدائے احتجاج ہے۔

تصوف جو مسلمانوں میں پیدا ہوا اور اس جگہ تصوف سے میری یہ مراد ایرانی تصوف ہے اس نے ہر قوم کی رہبانیت سے فائدہ اٹھایا ہے اور ہر رہبی تعلیم کو اپنے اندر جذب کرنے کی کوشش کی ہے۔ یہاں تک کہ قرامطی تحریک کا مقصد بھی بالآخر قیود شرعیہ اسلامیہ کو فنا کرنا تھا اور بعض صوفیا کی نسبت تاریخی شہادت موجود ہے کہ وہ اس تحریک سے تعلق رکھتے تھے۔ اب تک جو اعتراضات آپ کی طرف سے ہوئے ہیں وہ مثنوی کے دیباچے پر ہوئے ہیں نہ کہ خود مثنوی پر ۔ اس لیے جب تک مجھے یہ نہ معلوم ہو کہ مثنوی پر آپ کے کیا اعتراضات ہیں اس وقت تک میں کیوں کر قلم اٹھا سکتا ہوں ؟ اب تک مثنوی پر جو اعتراض آپ نے کیا ہے وہ یہ ہے کہ اس میں حافظ شیرازی کی بے حرمتی کی گئی ہے ۔ لیکن جب تک اصولی بحث نہ ہو یہ معلوم نہیں ہو سکتا کہ میں حافظ پر تنقید کرنے میں کہاں تک حق بجانب ہوں۔

حضرت امام ربانی مجدد الف ثانی  ؒ نے مکتوبات میں ایک جگہ یہ بحث کی ہے کہ گسستن اچھا ہے یا پیوستن ؟ یعنی فراق اچھا ہے یا وصال ؟ میرے نزدیک گسستن ، عین اسلام ہے اور پیوستن رہبانیت یا ایرانی (غیر اسلامی) تصوف ہے اور میں اس غیر اسلامی تصوف کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرتا ہوں ۔ گزشتہ علمائے اسلام نے بھی ایسا ہی کیا ہے اور اس بات کی تاریخی شہادت موجود ہے ۔

آپ کو یاد ہوگا جب آپ نے مجھے ’’ سرِّ الوصال‘‘ کا لقب دیا تھا تو میں نے آپ کو لکھا تھا کہ مجھے ’’سرِّ الفراق‘‘کہا جائے ۔ اس وقت بھی میرے ذہن میں یہی امتیاز تھا جو حضرت مجدد الف ثانی ؒ نے کیا ہے۔

آپ کے تصوف کی اصطلاح میں اگر میں اپنے مذہب کو بیان کروں تو یہ ہوگا کہ شانِ عبدیت انتہائی کمال ، روح انسانی کا اس سے آگے کوئی مرتبہ نہیں ہے یا ابن عربی ؒ کے الفاظ میں ’’عدم محض‘‘ ہے یا بالفاظِ دیگر یوں کہہ سکتے ہیں کہ حالتِ سُکر ، منشائے اسلام اور قوانین حیات دونوں کے خلاف ہے اور حالتِ صحو جس کا دوسرا نام اسلام ہے قوانینِ حیات کے عین مطابق ہے اور خود آنحضرت  ﷺکا منشا بھی یہی تھا کہ ایسے لوگ پیدا ہوں جن کی حالت کیفیتِ صحو ہو ۔ یہی وجہ ہے کہ آپؐ کے صحابہ میں ہمیں صدیق اکبرؓ اور فاروق اعظمؓ تو ملتے ہیں لیکن حافظ شیرازی کوئی نظر نہیں آتا۔

یہ مضمون بہت طویل ہے اس مختصر خط میں نہیں سما سکتا ۔ ان شاء اللہ اس پر مفصل بحث کروں گا، جب حالات مساعدت کریں گے مگر شیخ ابن عربی کے ذکر سے ایک بات یاد آ گئی جس کو اس لیے بیان کرتا ہوں کہ آپ کو غلط فہمی نہ رہے ۔

میں شیخ کی عظمت اور فضیلت دونوں کا قائل ہوں اور اُن کو اسلام کے بہت بڑے حکماء میں سے سمجھتا ہوں۔ مجھے اُن کے اسلام میں بھی کوئی شک نہیں ہے کیوں کہ جو عقائد ان کے ہیں (مثلاً قدم ارواح اور وحدت الوجود) ان کو انہوں نے فلسفہ کی بنا پر نہیں جانا بلکہ نیک نیتی سے قرآن حکیم سے مستنبط کیا ہے پس ان کے عقائد صحیح ہوں یا غلط ، قرآن کی تاویل پر مبنی ہیں یہ دوسری بات ہے کہ جو تاویل انہوں نے پیش کی ہے وہ منطقی یا منقولی اعتبار سے صحیح ہے یا غلط ؟

میرے نزدیک ان کی پیش کردہ تاویل یا تفسیر صحیح نہیں ہے اس لیے گو میں ان کو ایک مخلص مسلمان سمجھتا ہوں مگر ان کے عقائد کا پیرو نہیں ہوں ۔

اصل بات یہ ہے کہ صوفیا کو توحید اور وحدت الوجود کا مفہوم سمجھنے میں بڑی غلطی ہوئی ہے ۔ یہ دونوں اصطلاحیں مترادف نہیں ہیں ۔ مقدم الذکر کا مفہوم مذہبی ہے اور مؤخرالذکر کا مفہوم خالص فلسفیانہ ہے۔ توحید کی ضد کثرت نہیں ہے جیسا کہ بعض صوفیا سمجھتے ہیں بلکہ شرک ہے۔ ہاں وحدت الوجود کی ضد کثرت ہے اس غلطی کا نتیجہ یہ ہوا کہ جن لوگوں نے وحدت الوجود یا زمانہ حال کے فلسفہ یورپ کی اصطلاح میں توحید کو ثابت کیا وہ موحد تصور کیے گئے ، حالانکہ ان کے ثابت کردہ مسئلہ کا تعلق مذہب سے بالکل نہ تھا بلکہ نظام عالم کی حقیقت سے تھا (یعنی یہ کہ اس کائنات کا وجود حقیقی نہیں ہے)۔

اسلام کی تعلیم نہائت صاف ، واضح اور روشن ہے یعنی یہ کہ عبادت کے لائق صرف ایک ذات ہے باقی جو کچھ ، کثرت ، عالم میں نظر آتی ہے وہ سب کی سب مخلوق ہے، گو علمی اور فلسفیانہ اعتبار سے اس کی حقیقت ایک ہی کیوں نہ ہو ۔ چونکہ صوفیا نے فلسفہ اور مذہب کے دو مختلف مسائل(وحدت الوجود اور توحید) کو ایک ہی سمجھ لیا ہے اس لیے ان کو یہ فکر لاحق ہوئی کہ توحید کو ثابت کرنے کا کوئی اور طریق ہونا چاہیے جو عقل اور ادراک کے قوانین سے تعلق نہ رکھتا ہو،  اس غرض کے لیے حالت سُکر ممدو معاون ہوتی ہے ، اور یہ ہے اصل، مسئلہ حال و مقامات کی ۔ مجھے حالت سُکر کی واقفیت سے انکار نہیں۔ انکار صرف اس بات سے ہے کہ جس غرض کے لیے یہ حالت پیدا کی جاتی ہے وہ غرض اس سے مطلق پوری نہیں ہوتی۔ زیادہ سے زیادہ صاحبِ حال کو ایک علمی مسئلہ کی تصدیق ہو جاتی ہے نہ کہ مذہبی مسئلہ کی (یعنی حالتِ سُکر یا جذب و مستی میںسالک کو اس بات کا علم ہو جاتا ہے کہ واقعی کائنات میں اللہ کے سوا اور کسی کا وجود نہیں ہے) صوفیا نے وحدت الوجود کی کیفیت کو محض ایک مقام لکھا ہے اور شیخ اکبر کے نزدیک یہ انتہائی مقام ہے اور اس کے آگے ’’عدم محض ‘‘ ہے لیکن یہ سوال کسی صوفی کے دل میں پیدا نہیں ہوا کہ آیا یہ مقام کسی حقیقت نفس الامری کو بھی واضح کرتا ہے یا نہیں؟

اگر کثرت حقیقت نفس الامری ہے تو یہ کیفیت وحدت الوجود جو سالک پر طاری ہوتی ہے محض دھوکہ ہے اور مذہبی یا فلسفیانہ اعتبار سے اس کی کوئی وقعت نہیں ہے نیز اگر یہ کیفیت وحدت الوجود محض ایک مقام ہے اور کسی حقیقت نفس الامری کا اس سے انکشاف نہیں ہوتا تو پھر اس کو معقولی طور پر ثابت کرنا بھی بے سود ہے جیسا کہ ابن عربی اور ان کے متبعین نے کیا ہے اور نہ اس کے مقام ہونے کی بنا پر ہمیں روحانی زندگی میں کوئی فائدہ حاصل ہو سکتا ہے کیونکہ قرآنی تعلیمات کی روشنی میں یا اس کی رو سے وجود فی الخارج(کائنات) کی ذات باری کے ساتھ اتحاد یا عینیت کی نسبت نہیں ہے بلکہ مخلوقیت کی نسبت ہے(یعنی خدا خالق ہے اور کائنات مخلوق ہے اور خالق اور مخلوق کے مابین مغائرت ہوتی ہے) اگر قرآن کی تعلیم یہ ہوتی کہ ذات باری تعالیٰ کثرت نظام عالم میں دائرو سائر ہے تو کیفیت وحدت الوجود کو قلب پر وارد کرنا مذہبی زندگی کے لیے نہایت مفید ہوتا بلکہ یہ کیفیت مذہبی زندگی کی آخری منزل ہوتی ۔ مگر میرا عقیدہ یہ ہے کہ یہ قرآن کی تعلیم نہیں ہے (یعنی قرآن کی رو سے خالق اور مخلوق یا عابد اور معبود میں مغائرتِ کلی ثابت ہوتی ہے) ا س کا نتیجہ ظاہر ہے کہ میرے نزدیک یہ کیفیت قلبی ، مذہبی اعتبار سے کوئی فائدہ نہیں رکھتی اور علم الحیات کی رو سے یہ ثابت کیا جا سکتا ہے کہ اس کیفیت کا ورود ملّی اعتبار سے بہت مضر ہے مگر علم الحیات کی رو سے اس پر بحث کرنا بہت فرصت چاہتا ہے ۔ فی الحال اس خط کو ختم کرتا ہوں اور اس طویل سمع خراشی کی معافی چاہتا ہوں ۱۶‘‘۔

اگرچہ علامہ نے اپنی طرف سے بہت کوشش کی لیکن خواجہ صاحب کا دل ان کی طرف سے صاف نہ ہوا ۔ ان کو یہ اندیشہ تھا کہ علامہ خدا نخواستہ تصوف کو مٹانا چاہتے ہیں۔

حافظ کے متعلق اپنے ایک وضاحتی مضمون میں علامہ رقمطراز ہیں:

’’میری ذاتی رائے تو یہ ہے کہ خواجہ شیراز محض ایک شاعر ہیں اور ان کے کلام سے جو صوفیانہ حقائق اخذ کیے گئے ہیں وہ بعد کے لوگوں کا کام ہے مگر چونکہ عام طور پر ان کو صوفی اور مجذوبِ کامل سمجھا گیا ہے اس واسطے میں نے ان کی تنقید ہر دو اعتبار سے کی ہے یعنی بحیثیت صوفی اور بحیثیت شاعر ۔ بحیثیت صوفی ہونے کے ان کا نصب العین یہ ہے کہ وہ اپنے آپ میں اور دوسروں میں(بذریعہ اپنے اشعار کے) وہ حالت و کشف پیدا کریں جس کو تصوف کی اصطلاح میں حالتِ سُکر کہتے ہیں ۔ ان کے صوفی شارحین نے صہبا و شراب وغیرہ سے یہی مراد لی ہے ۔ مگر دیکھنا یہ ہے کہ کیا سُکر کی حالت اسلامی تعلیم کا منشا ہے۔ رسول اللہ ﷺ اور صحابہ کی زندگی اس بات کا قطعی ثبوت ہے کہ ایک مسلمان قلب کی مستقل کیفیت بیداری ہے نہ خواب یا سُکر ۔ قرون اولیٰ کے مسلمانوں میں تو کوئی مجذوب نظر نہیں آتا بلکہ ابتدائی اسلامی لٹریچر میں مجذوب کی اصطلاح بھی مثل دیگر اصطلاحات صوفیہ کے نہیں ملتی ۱۷ ‘‘۔

اس سلسلے میں جہاں علامہ کی مخالفت ہوئی وہاں ان کی حمائت میں بھی بعض دانشوروں نے قلم اُٹھایا اور مولانااسلم جیراج پوری ان میں سے ایک تھے ۔ ان کا اس قضیہ کے متعلق ایک مضمون فروری ۱۹۱۹ء میںالناظر لکھنؤ میں شائع ہوا ۔

حضرت علامہ نے جب اس تبصرہ کا مطالعہ کیا تو انہیں بہت مسرت ہوئی کہ کم از کم کوئی دانشور تو ایسا ہے جس نے مثنوی کے اصل مقاصد کو سمجھا ہے چنانچہ انہوں نے مولانا کی خدمت میں ایک خط (۱۷؍مئی ۱۹۱۹ئ) لکھا جس کے مندرجات کچھ اس طرح کے تھے:

مخدومی ! السلام علیکم

آپ کا تبصرہ اسرار خودی پر الناظر میں دیکھا ہے جس کے لیے میں آپ کا نہائت شکر گزار ہوں   ؎

دید مت مر دے دریں قحط الرجال

خواجہ حافظ پر جو اشعار میں نے لکھے تھے ان کا مقصد محض ایک لڑیری اصول کی توضیح اور تشریح تھا خواجہ کی پرائیویٹ شخصیت یا ان کی معتقدات سے کوئی سرو کار نہ تھا مگر عوام اس باریک فرق کو سمجھ نہ سکے اور نتیجہ یہ ہوا کہ اس پر بڑی لے دے ہوئی۔ اگر لڑیری اصول یہ ہو کہ حُسن ، حُسن ہے خواہ اس کے نتائج مفید ہوں یا مضر تو خواجہ دنیا کے بہترین شعرا میں سے ہیں۔بہرحال میں نے وہ اشعار حذف کر دیے ہیں اور ان کی جگہ اس لٹریری اصول کی تشریح کرنے کی کوشش کی ہے جس کو میں صحیح سمجھتا ہوں۔ عرفی کی طرف اشارہ کرنے سے محض اس کے بعض اشعار کی طرف تلمیح مقصود تھی مثلاً

گرفتم آنکہ بہشتم و ہند بے طاعت

قبول کر دنِ صدقہ نہ شرطِ انصاف است

لیکن اس مقابلہ سے میں خود مطمئن نہ تھا اور یہ ایک مزید وجہ ان اشعار کو حذف کر دینے کی تھی ۔ دیباچہ بہت مختصر تھا اور اپنے اختصار کی وجہ سے غلط فہمی کا باعث تھا جیسا کہ مجھے بعض احباب کے خطوط سے اور دیگر تحریروں سے معلوم ہوا جو وقتاً فوقتاًشائع ہوتی رہتی ہیں ۔

کیمرج کے پروفیسر نکلسن بھی اس خیال میں آپ کے ہمنوا ہیں کہ دیباچہ کو دوسرے ایڈیشن سے حذف نہ کرنا چاہیے تھا ۔ انہوں نے اس کا ترجمہ انگریزی میں کرایا ہے شاید انگریزی ایڈیشن کے ساتھ شائع کر دیں۔

پیرزادہ مظفر الدین احمد صاحب نے میرا مقصد مطلق نہیں سمجھا ۔

تصوف سے اگر اخلاص فی العمل مراد لی جائے اور یہی مفہوم قرون اولیٰ میں اس کا لیا جاتا تھا تو کسی مسلمان کو اس پر اعتراض نہیں ہو سکتا ہاں جب تصوف فلسفہ بننے کی کوشش کرتا ہے اور عجمی اثرات کی وجہ سے نظام عالم کے حقائق اور ذات باری تعالیٰ کے متعلق موشگافیاں کر کے کشفی نظریہ پیش کرتا ہے تو میری روح اس کے خلاف بغاوت کرتی ہے۔ میں نے تصوف کی تاریخ لکھنی شروع کی مگر افسوس کہ مسالہ نہ مل سکا اور ایک دو بات لکھ کر رہ گیا ۔ پروفیسر نکلسن اسلامی شاعری اور تصوف کے نام سے ایک کتاب لکھ رہے ہیں جو عنقریب شائع ہو گی ممکن ہے کہ یہ کتاب ایک حد تک وہی کام کر دے جو میں کرنا چاہتا تھا ۔

منصور حلاج کا رسالہ کتاب الطواسین جس کا ذکر ابن حزم کی فہرست میں ہے فرانس میں شائع ہو گیا ہے۔ حسین منصور کے اصلی معتقدات پر اس رسالہ سے بڑی روشنی پڑتی ہے اور معلوم ہوتا ہے کہ اُس زمانے کے مسلمان اس کی سزا دہی میں بالکل حق بجانب تھے ۔ اس کے علاوہ ابن حزم نے کتاب الملل و النحل میں جو کچھ منصور کے متعلق لکھا ہے اس کی اس رسالہ سے پوری تائید ہوتی ہے ۔لطف یہ ہے کہ غیر صوفیا قریباً سب کے سب منصور سے بیزار تھے معلوم نہیں متاخرین اس کے اس قدر دلدادہ کیوں ہو گئے ۔ مذہب آفتاب پرستی کے متعلق جو تحقیقات موجودہ زمانہ میں ہو رہی ہیں اس سے امید ہوتی ہے کہ عجمی تصوف کے پوشیدہ مراسم کی اصلیت بہت جلد دنیا کو معلوم ہو جائے گی ۔

مجھے امید ہے کہ طویل خط کے لیے آپ مجھے معاف فرما ئیں گے ۔ آپ کے تبصرہ سے مجھے بڑی تسکین قلب ہوئی ۔

آپ کا مخلص

محمد اقبال ۱۸ ‘‘

روز گار فقیر کی جلد دوم میں لکھا ہے کہ :

’’ علامہ کی مثنوی اسرار خودی کے خلاف جب یہ ہنگام گرم تھا، انہی دنوں علامہ سیالکوٹ تشریف لائے اور باپ بیٹے جب یکجا بیٹھے تو مثنوی پر حلقۂ صوفیہ کی برہمی کا ذکر آیا ۔ علامہ نے فرمایا کہ میں نے حافظ کی ذات اور شخصیت پر اعتراض نہیں کیا ۔ میں نے صرف ایک اصول کی تشریح کی ہے ۔ اس کا افسوس ہے کہ مسلمانانِ وطن پر عجمی اثرات اس قدر غالب آ چکے ہیں کہ وہ زہر کو آبِ حیات سمجھتے ہیں۔

علامہ کے والد بزرگوار نے بڑی مرنجاں مرنج طبیعت پائی تھی ۔ انہوں نے اس پر فرمایا 

کہ اگر حافظ کے عقیدت مندوں کے جذبات کو ٹھیس لگائے بغیر اصول کی تشریح کر دی جاتی تو اچھا تھا ۔ علامہ نے اس کے جواب میں کہا کہ ’’یہ حافظ پرستی بھی تو بت پرستی سے کم نہیں ‘‘ اس پر ان کے والد نے فرمایا کہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ نے تو بتوں کو بھی بُرا کہنے سے منع فرمایا ہے۔ اس لیے مثنوی کے وہ اشعار جن پر عقیدت مندانِ حافظ کو اعتراض ہے آئندہ ایڈیشن میں ان کا حذف کر دینا ہی مناسب ہوگا۔ علامہ نے اس پر زبان سے کچھ نہیں کہا بس مسکرا کر رہ گئے اور اپنے والدِ محترم سے بحث کرنے کی بجائے ان کے حضور سر تسلیم خم کر دیا۱۹ ‘‘۔

اب یہاں وہ مرحلہ آتا ہے کہ علامہ پھر سے تصوف اور وحدت الوجود کی طرف مراجعت کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ مولانا شاہ سلیمان پھلواروی کو اپنے ایک مکتوب (۹؍مارچ ۱۹۱۶ئ) میں لکھتے ہیں:

’’حقیقی اسلامی تصوف کا میں کیونکر مخالف ہو سکتا ہوں کہ خود سلسلۂ عالیہ قادریہ سے تعلق رکھتا ہوں۔میں نے تصوف کا لٹریچر کرآت سے دیکھا ہے ۔ بعض لوگوں نے ضرور غیر اسلامی عناصر اس میں داخل کر دیے ہیں۔ جو شخص غیر اسلامی تصوف کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرتا ہے وہ تصوف کا خیر خواہ ہے نہ کہ مخالف۔ انہی غیر اسلامی عناصر کی وجہ سے ہی مغربی محققین نے تمام تصوف کو غیر اسلامی قرار دیا ہے اور یہ حملہ انہوں نے حقیقت میں اسلام پر کیا ہے ۔ ان حالات کو مدِّنظر رکھتے ہوئے یہ ضروری ہے کہ تصوفِ اسلامیہ کی ایک تاریخ لکھی جائے جس سے معاملہ صاف ہو جائے اور غیر اسلامی عناصر سے تقطیع ہو جائے ۔ سلاسلِ تصوف کی تاریخی تنقید بھی ضروری ہے اور زمانہِ حال کا علم النفس جو مسئلہ تصوف پر حملہ کرنے کے لیے تیار کر رہا ہے اس کا پیشتر ہی سے علاج ہونا ضروری ہے ۲۰‘‘ ۔

اسی طرح سید نذیر نیازی کو ایک خط (۴؍جون ۱۹۲۹ئ) میں لکھتے ہیں:

’’تصوف لکھنے پڑھنے کی چیز نہیں، کرنے کی چیز ہے کتابوں کے مطالعہ اور تاریخی تحقیقات سے کیا ہوتا ہے کسی کو کوئی حقیقی فائدہ نہیں پہنچتا ۔ نہ کتابوں کے مصنف کو نہ اس کے پڑھنے والوں کو ۲۱‘‘۔

علامہ اپنے ساتویں خطبے میں وحدت الوجود کی طرف واضح تر الفاظ میں رجوع کرتے ہوئے دکِھائی دیتے ہیں:

’’اجمالاً پوچھئے تو مذہبی زندگی کی تقسیم تین ادوار میں ہو جاتی ہے اس میں پہلا دور عقیدہ (Faith) کا ہے دوسرا فکر (Thought) کا اور تیسرا ، کشف یا عرفان (Discovery) کا ۔۔۔ اس تیسرے دور میں انسان میں اس کی آرزو ہوتی ہے کہ وہ حقیقتِ مطلقہ سے براہ راست اتحاد و اتصال پیدا کرے۲۲‘‘۔

ایک اور جگہ کہتے ہیں :

’’ یہ صرف وجود حقیقی ہے جس سے اتصال میں خودی کو اپنی یکتائی اور مابعد الطبیعی مرتبہ و مقام کا عرفان ہوتا ہے ۲۳ ‘‘۔

اقبال اور شیخ اکبر :

علامہ اقبال اور شیخ الاکبر کا معاملہ بھی عجیب رہا ہے ۔ بعض مسائل میں علامہ کا شیخ سے فکری اختلاف ضرور رہا لیکن جہاں تک ان کی عظمت و محبت کا تعلق ہے علامہ نے اس کا اعتراف اپنے متعدد خطوط اور تحریروں میں کیا ہے ۔ اپنے ایک مقالہ’’ عبدالکریم جیلی کا تصور توحید مطلق ‘‘ مطبوعہ انڈین اینٹی کیوری بمبئی شمارہ ستمبر ۱۹۰۰ء کے حاشیہ میں ایک جگہ لکھتے ہیں:

’’شیخ محی الدین ابن عربی امت محمدی کے عظیم ترین صوفیاء میں سے تھے ۔ حیرت ناک حد تک کثیر التصانیف تھے۔ ان کا اعتقاد تھا کہ زمین سورج کے گرد گھومتی ہے اور سمندر پار ایک اور دنیا ہے۲۴ ‘‘۔

اسی طرح فلسفہ عجم میںایک جگہ لکھا ہے :

’’ تصوف کا وہ طالب علم جسے اصول توحید کی ایک جامع تفسیر و تعبیر کی تلاش ہو اُسے چاہیے کہ اندلس کے ابن العربی کی ضخیم کتابوں سے رجوع کرے جس کی عمیق تعلیمات اس کے ہم وطنوں کے روکھے پھیکے اسلام سے عجب تضاد رکھتی ہیں۲۵ ‘‘۔

’’تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ ‘‘ میں علامہ لکھتے ہیں :

’’سپین کے ایک عظیم مسلمان صوفی فلسفی ، محی الدین ابن عربی نے ایک بڑی نازک بات کہی ہے کہ خدا تو احساس ہے اور دنیا ایک تصور ہے ۲۶ ‘‘۔

شاہ سلیمان پھلواروی کو اپنے ایک خط (۲۴؍ فروری ۱۹۱۶ئ) میں شیخ سے اپنی محبت و اختلاف کے بارے میں لکھتے ہیں:

’’ شیخ اکبر محی الدین ابن عربی  ؒکی نسبت کوئی بدظنی نہیں بلکہ مجھے ان سے محبت ہے۔ میرے والد کوفتوحات اور فصوص سے کمال توغل رہا ہے اور چار برس کی عمر سے میرے کانوں میں ان کا نام اور ان کی تعلیم پڑنی شروع ہوئی ، برسوں تک ان دونوں کتابوں کا درس ہمارے گھر میں رہا ۔ گو بچپن کے دنوں میں مجھے ان مسائل کی سمجھ نہ تھی تاہم محفل درس میں ہر روز شریک ہوتا ، بعد میں جب عربی سیکھی تو کچھ کچھ خود پڑھنے لگا اور جوں جوں علم اور تجربہ بڑھتا گیا میرا شوق اور واقفیت زیادہ ہوتی گئی ۔ اس وقت میرا عقیدہ یہ ہے کہ حضرت شیخ کی تعلیمات قرآن کے مطابق نہیں ہیں اور نہ کسی تاویل و تشریح سے اس کے مطابق ہو سکتی ہیں لیکن یہ بالکل ممکن ہے کہ میں نے شیخ کا مفہوم غلط سمجھا ہو۔ کئی سالوں تک میرا  یہی خیال رہا ہے کہ میں غلطی پر ہوں ، گو اب میں سمجھتا ہوں کہ میں ایک قطعی نتیجے تک پہنچ گیا ہوں لیکن اس وقت بھی مجھے اپنے خیال کے لیے کوئی ضد نہیں اس واسطے بذریعہ عریضہ ہذا آپ کی خدمت میں ملتمس ہوں کہ از راہ عنائت و مکرمت چند اشارات تسطیر فرما دیں ۔ میں ان اشارات کی روشنی میں فصوص اور فتوحات کو پھر دیکھوں گا اور اپنے علم ورائے میں مناسب ترمیم کرلوں گا ۲۷ ‘‘۔

علامہ نے اپنے ایک خط (۸؍اگست ۱۹۳۳ئ) میں مولانا سید سلیمان ندوی سے شیخ اکبر کی تعلیم حقیقت زمان کے متعلق دریافت کرنے اور اس سلسلے میں ان کی رہنمائی کے طلب گار ہونے کی خواہش کا اظہار کیا۔ دراصل علامہ ، شیخ اکبر اور ان کی تعلیمات کے حوالے سے انگلستان میں لیکچر دینے کے خواہش مند تھے ۔ اس سے پہلے وہ ۱۹۳۲ء میں حضرت مجدد الف ثانی پر ایک لیکچر دے چکے تھے جو ان کے بقول بہت سراہا گیا تھا ۔ علامہ لکھتے ہیں:

’’مخدومی! السلام علیکم

چند ضروری امور دریافت طلب ہیں جن کے لیے زحمت دے رہا ہوں ، از راہ عنائت معاف فرمائیے ۔

۱ ۔ حضرت محی الدین ابن عربی کے فتوحات یا کسی اور کتاب میں حقیقت زمان کی بحث کس کس جگہ ہے؟ حوالے مطلوب ہیں ۔

۲ ۔ حضراتِ صوفیہ میں اگر کسی اور بزرگ نے بھی اِس مضمون پر بحث کی ہو تو اس کے حوالے سے بھی آگاہ فرمائیے ۔

۳ ۔ متکلمین کے نقطۂ خیال سے حقیقت زمان یا آن سیّال پر مختصر اور مدلل بحث کون سی کتاب میں ملے گی ؟ امام رازی کی مباحث مشرقیہ میں آج کل دیکھ رہا ہوں ۔

۴ ۔ ہندوستان میں بڑے بڑے اشاعرہ کون کون سے ہیں اور مُلا محمود جونپوری کو چھوڑ کر کیا اور فلاسفہ بھی ہندوستانی مسلمانوں میں پیدا ہوئے؟ ان کے اسماء سے مطلع فرمائیے اگر ممکن ہو تو ان کی بڑی بڑی تصنیفات سے بھی ۔ امید ہے کہ مزاج بخیر و عافیت ہوگا ۔

والسلام

مخلص

محمد اقبال ۲۸

اسی قسم کے مضمون کا ایک خط (مورخہ ۱۸؍اگست ۱۹۳۳ئ) علامہ نے پیر مہر علی شاہ گولڑوی کو بھی لکھا۔ پیر صاحب اس وقت عالم استغراق میں تھے اس لیے جواب نہ دے سکے ۔ علامہ کے ساتھ بھی زندگی نے وفا نہ کی اور وہ شیخ اکبر پر لیکچر دینے کی خواہش دل میں لیے واصل بحق ہوئے ۔ وفات تک علامہ ، شیخ اکبر کی تعلیمات کو سمجھنے کی کوشش میں مصروف رہے۔پیر صاحب کو لکھتے ہیں :

’’مخدوم و محترم حضرت قبلہ ! السلام علیکم ۔

اگرچہ زیارت اور استفادہ کا شوق ایک مدت سے ہے ، تاہم اس سے پہلے شرف نیاز حاصل نہیں ہوا ۔ اب اس محرومی کی تلافی اس عریضہ سے کرتا ہوں۔ گو مجھے اندیشہ ہے کہ اس خط کا جواب لکھنے یا لکھوانے میں جناب کو زحمت ہو گی بہرحال جناب کی وسعت اخلاق پر بھروسہ کرتے ہوئے یہ چند سطور لکھنے کی جرأت کرتا ہوں کہ اس وقت ہندوستان بھر میںکوئی اور دروازہ نہیں جو پیشِ نظر مقصد کے لیے کھٹکھٹایا جائے ۔

میں نے گزشتہ سال انگلستان میں حضرت مجدد الف ثانی  ؒ پر ایک تقریر کی تھی جو وہاں کے ادا شناس لوگوں میں بہت مقبول ہوئی۔ اب پھر اُدھر جانے کا قصد ہے اور اس سفر میں حضرت محی الدین ابن عربی پر کچھ کہنے کا ارادہ ہے ۔ نظر بایں حال چند امور دریافت طلب ہیں ۔ جناب کے اخلاق کریمانہ سے بعید نہ ہو گا اگر سوالات کا جواب شافی مرحمت فرمایا جائے۔

۱ ۔ اول یہ کہ حضرت شیخ اکبرؒ نے تعلیم حقیقت زمان کے متعلق کیا کہا ہے اور آئمہ متکلمین سے کہاں تک مختلف ہے ؟

۲ ۔ یہ تعلیم شیخ اکبرؒ کی کون کون سی کتب میں پائی جاتی ہے اور کہاں کہاں ؟ اس سوال کا مقصود یہ ہے کہ سوال اول کے جواب کی روشنی میں خود بھی ان مقامات کا مطالعہ کر سکوں ۔

۳ ۔ حضرات صوفیہ میں اگر کسی بزرگ نے بھی حقیقت زمان پر بحث کی ہو تو ان بزرگ کے ارشادات کے نشان بھی مطلوب ہیں۔ مولوی سید انور شاہ صاحب مرحوم و مغفور نے مجھے عراقی کا ایک رسالہ مرحمت فرمایا تھاا اس کا نام تھا درائیۃ الزمّان ۔جناب کو ضرور اس کا علم ہو گا۔میں نے یہ رسالہ دیکھا ہے مگر چونکہ یہ رسالہ بہت مختصر ہے اس لیے مزید روشنی کی ضرورت ہے۔

میں نے سنا ہے کہ جناب نے درس و تدریس کا سلسلہ ترک فرما دیا ہے اس لیے مجھے یہ عریضہ لکھنے میں تامل تھا، لیکن مقصود چونکہ خدمت اسلام ہے ، مجھے یقین ہے کہ اس تصدیعہ کے لیے جناب معاف فرمائیں گے ۔ باقی التماسِ دعا ہے ۲۹‘‘ ۔

ڈاکٹر الف، د، نسیم ، علامہ کے وحدت الوجود اور شیخ اکبر سے گریز و کشش کی وجوہات بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

’’اقبال اپنے بچپن ، لڑکپن اور ابتدائے شباب میں تصوف اور وحدت الوجود کے قائل تھے۔ فلسفہ عجم و یورپ کے مستشرقین اور مغرب زدہ مصنفین کی تحریروں سے تصوف اسلامی اور عجمی تصوف میں مشابہت اور یگانگت کے مغالطے کی بنا پر وہ اسلامی تصوف اور وحدت الوجود کے خلاف ہو گئے ۔ جب ان کا واسطہ چند صحیح الخیال ہم عصر بزرگوںکے اعتراضات سے پڑا تو احساس ہوا کہ کہیں میری ہی غلط فہمی نہ ہو ۔ ان سے خط و کتابت کے ذریعے حقیقت سے آگاہ ہونے کی خلوصِ دل سے سعی کی ۔ اس خط و کتابت سے قاری کو دو چیزوں کا علم ہوتا ہے ایک تو یہ کہ علامہ اقبال کو تصوف و وجود کی مخالفت کے زمانے میں اسلامی تصوف ثقہ صوفیہ اور ان کے خیالات و افکار خصوصاً ابن عربی اور ان کے متبعین کے خیالات اور مذہب کے بعض رخوں سے مکمل اور صحیح واقفیت نہ تھی ۔ اقبال میں رفتہ رفتہ تصوف اور وجود کے صحیح رخ سے تعارف اور اس کے سمجھنے کے لیے ایسا اضطراب پیدا ہو چکا تھا جس نے انہیں وہ اقبال بنا دیا جو تصوف اور وجود کا شیدائی تھا ۳۰ ‘‘۔

علامہ شیخ اکبر کے نظریہ وحدت الوجود سے کسی حد تک ضرور متاثر تھے اور کہیں کہیں ان کے خوشہ چین بھی۔ محمد شریف بقا، اقبال اور تصوف میں لکھتے ہیں :

’’ علامہ موصوف کا نظریہ وحدت الوجود کافی حد تک مولانا روم کی طرح ابن عربی سے متاثر نظر آتا ہے اگرچہ بعد میں انہوں نے وحدت الشہود کے تصور کو اپنا لیا تھا ۔ لیکن پھر بھی وہ پوری طرح وحدت الوجود کے تصور سے چھٹکارا نہ پا سکے ضرب کلیم کی ایک نظم ’’تقدیر ‘‘ میں زیادہ تر محی الدین ابن عربی کے تصور ابلیس پر روشنی ڈالی ہے ۔ یہ ابن عربی سے ماخوذ ہے ۳۱ ‘‘

علامہ کے نزدیک وحدت الوجود کی منزل وحدت الشہود سے پہلے کی ہے جیسا کہ حضرت مجدد کا خیال ہے شہودی منزل گویا انتہا ہے ۔ حضرتِ علامہ کا جھکائو مؤخرالذکر نظریہ کی طرف رہا اس لیے وہ اپنے روحانی مرشد مولانا رومی سے جو خود بہت بڑے وجودی تھے، سے اسی مقام سے الگ ہوتے دکھائی دیتے ہیں:

’’رومی اور اقبال صرف ایک منزل پر الگ ہو جاتے ہیں اور وہ تصوف کی منزل ہے۔ رومی وحدت الوجود کا قائل ہے اور اقبال وحدت الشہود کا۔ اقبال خودی کی انفرادیت کو کسی منزل میں بھی کھونا نہیں چاہتا ۳۲ ‘‘ ۔

علامہ کو رومی کے ہاں عشق کا اور ابن عربی کے ہاں انسانی عظمت کا تصور پسند ہے۔ انسانِ کامل کے تصور کے حوالے سے انہوں نے ابن عربی سے بھرپور استفادہ کیا ہے ۔ واجد رضوی رقمطراز ہیں :

’’شیخ محی الدین ابن العربی کا انسان کامل بجائے خود ایک عالم ہے کیونکہ وہ خدا کی تمام صفات اورکمالات کا مظہر ہے ۔ وہ حقیقت کی ایک مختصر تصویر ہے ۔ خدا سے مکمل اتحاد و یگانگت کے باعث اُسے یہ مقام نصیب ہوتا ہے ، لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ انسانِ کامل کا کمال کیا ہے۔ وہ اپنے علم میں کامل ہوتا ہے یا اپنے وجود میںیا ان دونوں میں کمال حاصل کرتا ہے یا خدا کا کامل مظہر ہونے کی وجہ سے کامل ہے یا محض اپنی عارفانہ کیفیت میں وہ خدا سے یگانگت محسوس کرتا ہے؟ ابن عربی ان صورتوں کو مخلوط کر دیتے ہیں۔

اپنی کامل حیثیت میں انسان خدا کا ایک عکس ہے۔ وہ ایک آئنہ ہے جو خدا کی تمام صفات کو منعکس کرتا ہے ۔ روحانی تربیت اور صوفیانہ مشقت سے یہ کمال حاصل ہوتا ہے ۔ اس ترقی کے تین مدارج ہیں۔ پہلے درجہ میں انسان خدا کے اسماء پر غور کرتا ہے ۔ دوسرے میںاس کی صفات کو جذب کر کے معجزانہ طاقت حاصل کرتا ہے اور تیسرے درجہ میں وہ اسماء اور صفات سے متجاوز ہو کر جوہر کے دائرہ میں داخل ہوتا ہے اور انسان کامل بن جاتا ہے۔ یہ وہ مقام ہے جہاں اس کی آنکھ ،خدا کی آنکھ، اس کی زبان خدا کی زبان ، اس کا ہاتھ خدا کا ہاتھ اور اس کی حیات خدا کی حیات بن جاتی ہے اسی تصور کو اقبال نے حسین پیرایہ میں اس طرح پیش کیا ہے   ؎

ہاتھ ہے اللہ کا بندئہ مومن کا ہاتھ

 غالب و کار آفریں، کار کشا ، کار ساز

خاکی و نوری نہاد بندئہ مولا صفات

 ہر دو جہاں سے غنی اس کا دل بے نیاز

عقل کی منزل ہے وہ عشق کا حاصل ہے وہ

 حلقۂ آفاق میں گرمیِ محفل ہے وہ ۳۳

اقبال اور ابن عربی دونوں اس بات پر متفق ہیں کہ بہشت و دوزخ مقامات نہیں بلکہ دوزخ اور بہشت روح اور دماغ کی کیفیات ہیں۔ قرآن میں ان کا بیان ایک حالتِ شعوری کا ہے جسے انسان اپنے اندر اپنے اعمال کے مطابق محسوس کرتا ہے اگرچہ یہ دونوں اپنے بیان کے انداز میں مختلف ہیں لیکن دونوں کا اس امر پر اتفاق ہے کہ وہ  States ہیں Localities نہیں ہیں ۔ جنت مقام تفریح نہیں ہے ، وہاں تو روح دائمی طور پر عمل کرتے ہوئے مزید مراحل طے کرتی ہے ۳۴۔

افکار کے انہی اتحاد اور اقبال کے ابن عربی سے استفادے کی بنیاد پر تلمیحات اقبال میں سید عابد علی عابد مرحوم نے پتے کی بات کہی ہے ۔ وہ لکھتے ہیں:

’’علامہ نے ایران کے مابعدالطبیعیات اور اپنے خطبات میں ابن عربی سے استفادہ بھی کیا ہے اوران کی تردید بھی کی ہے ۳۵ ‘‘۔

شیخ الاکبر اور وحدت الوجود کے سلسلے میں علامہ کے خیالات میں بتدریج تبدیلی آ گئی تھی جیسا کہ ڈاکٹر وزیر آغا لکھتے ہیں :

’’اقبال نے آغازِ کار میں یہ کہا تھا کہ’’ تصوف نوافلاطونیت سے متاثر ہے اور ابن عربی اور شنکر متحدالخیال ہیں ‘‘۔ جس کا مطلب یہ تھا کہ وہ وحدت الوجود کے سلسلے میں ان تینوں مکاتیب کو متحدالخیال سمجھتے تھے مگر بعدازاں جب انہیں محسوس ہوا کہ شنکر کا فلسفہ نفی ٔ خود پر منتج ہوتا ہے جبکہ شیخ محی الدین ابن العربی عالم کو فریبِ نظر سمجھتا بلکہ اسے مظہر حق قرار دیتا ہے(میکش اکبر آبادی ۔ نقد اقبال ، ص ۷۸) تو وحدت الوجود کے خلاف ان کے رد عمل میں تبدیلی آگئی ۳۶ ‘‘۔

ڈاکٹر الف ۔ د ۔ نسیم تو یہاں تک کہتے ہیں :

’’علامہ اقبال اور شیخ ابن عربی کے درمیان مسئلہ وحدت الوجود پر کوئی نزاع نہیں بلکہ دونوںایک ہی حقیقت کے قائل ہیں ۔ اگر فرق ہے تو صرف یہ کہ شیخ ابن عربی انائے مطلق (اللہ یا وجود مطلق) کو اصل قرار دے کر انائے مقید (خودی یا اشیائ)کو اس کی شان قرار دیتے ہیں لیکن اقبال یہ تسلیم کرتے ہوئے اپنی ساری توجہ انائے مقید (خودی) پر مربوط رکھتے ہیں اور انائے مقید کی معرفت سے انائے مطلق (خدا) کی معرفت کی طرف پڑھتے ہیں ۳۷ ‘‘ ۔

ان اقتباسات کے تناظر میں پروفیسر یوسف سلیم چشتی کی یہ بات درست معلوم ہوتی ہے کہ :

’’اقبال آخری عمر میں وحدت الوجود کے قائل ہو گئے تھے اور ایسا ہونا کوئی خلافِ توقع یا حیرت انگیز بات نہیں ہے۔خدا کو ماننے والا فلسفی آخر وجودی ہو ہی جاتا ہے اور اقبال کی سرشت ہی صوفیانہ تھی ۳۸ ‘‘۔

علامہ اقبال کے وجودی ہونے کے حوالے سے پروفیسر صاحب ، علامہ سے اپنی ایک ملاقات جو ۱۹۳۰ء میں ہوئی کا احوال بیان کرتے ہیں :

’’ایک ملاقات کے دوران علامہ اقبال سے عرض کی کہ مجھے مسئلہ وحدت الوجود سمجھا دیجیے اس پر انہوں نے جواب دیا کہ دراصل یہ مسئلہ قال سے تعلق نہیں رکھتا جب تک تم پر یہ حالت طاری نہ ہو کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کا وجود نظر نہ آئے اس وقت تک تم یہ مسئلہ کما حقہ ، نہیں سمجھ سکتے ۔ علاوہ بریں اس کی تفسیر بذریعہ الفاظ بہت دشوار ہے بلکہ اس قدر نازک ہے کہ اگر بیان کرنے والے سے معمولی فروگزاشت ہو جائے یا سننے والا غلط فہمی میں مبتلا ہو جائے تو دونوں صورتوں میں کفر یا الحاد لازم آ جاتا ہے اس لیے تم بطور خود اس کو سمجھنے کی کوشش کرو ۔۔۔ میں نے حضرت حکیم برکات احمد ٹونکی کے رسالہ وحدت الوجود کا مطالعہ کیا تو میں نے یہی مسلک اختیار کر لیا ۔ لا موجود اِلاَّ ھُوْا (اللہ کے سوا کوئی موجود نہیں) اور مجھے خوشی ہے کہ آخر عمر میں اقبال بھی وجودی ہو گئے تھے۳۹ ‘‘ ۔

اسی طرح محمد طاہر فاروقی لکھتے ہیں :

’’مسلمان صوفیوں کا عقیدہ ہے کہ کائنات خدا سے علیحدہ نہیں بلکہ اس کے مظاہر کا نام عالم ہے ۔ قرآن کی آیات بھی اس حقیقت پر شاہد ہیں ۔ اقبال بھی وحدت الوجود کے قائل ہیں ۔ لیکن اپنے بیان میں اس مصلحت کو پوشیدہ رکھنا چاہتے ہیں مگر جوش میں آ کر اصل حقیقت بھی کہہ جاتے ہیں۴۰ ‘‘ ۔

حاصل کلام یہ ہے کہ علامہ اقبال نہ صرف اسلامی تصوف کے قائل تھے بلکہ وہ سلسلہ قادریہ میں بیعت تھے اور ان صوفیائے کرام سے والہانہ عقیدت و شیفتگی رکھتے تھے ۔ جنہوں نے اسلامی تصوف کو اپنے حکیمانہ نظریات سے پروان چڑھایا ۔ وہ شریعت کے آئینے میں حقیقت کا جمال دیکھنا چاہتے تھے اور جس آئنہ گر کے آئینے میں یہ جمال ہم آہنگ ہو کر نظر آ جاتا ، علامہ اس کے والہ و شیدا ہو جاتے ۔ وہ ان صوفیائے کرام کے بے حد مداح و معترف ہیں جنہوں نے ملتِ اسلامیہ کے جسد میں نئی روح پھونکی اور زوال وا نحطاط کے دور میں احیائے دین کے نئے راستے تلاش کیے اور مسلمانوں کی دینی اور سماجی زندگی کے آراستہ کرنے میں عظیم الشان کارنامے انجام دیے ۔ علامہ نے اپنے شعری و نثری سرمائے میں ان کے ناموں کے ساتھ انہیں خراج عقیدت پیش کر کے اپنی تصوف دوستی کا اعتراف کیا ہے اور ان میں اکثریت وجودی صوفیہ کی ہے ۔

 

 

حواشی

 

۱ ۔           عشرت حسن انور ؍مترجم ڈاکٹر شمس الدین صدیقی ’’اقبال کی مابعدالطبیعات ‘‘ ۔ اقبال اکادمی پاکستان ، لاہور ، طبع اوّل ۱۹۷۷ء ۔ دیباچہ

۲ ۔           جاوید اقبال ، ڈاکٹر ، ماہنامہ ماہ نو ۔ ۴۰ سال مخزن ، جلد اوّل ، ناشر ادارہ مطبوعات پاکستان ، لاہور ، سن اشاعت اگست ۸۷ ۱۹ئ، ص ۸۰۹

۳ ۔           عطاء اللہ ، شیخ ، ’’اقبال نامہ ‘‘ جلد دوم ۔ لاہور ، ۱۹۵۱ء ، ص۳۵۵

۴ ۔           سید عبدالواحد معینی ، محمد عبداللہ قریشی (مرتبین) ’’مقالاتِ اقبال ‘‘ ، آئینہ ادب ، لاہور ، بار دوم ۱۹۸۸ء ، ص ۲۱۸

۵ ۔           عطا للہ ، شیخ ’’اقبال نامہ ‘‘ جلد اوّل ۔ شیخ محمد اشرف ، لاہور ، ۱۹۴۵ء ، ص ۴۰

۶ ۔           ایضاً ، ص ۵۴

۷ ۔           سید عبدالواحد معینی ، محمد عبداللہ قریشی (مرتبین) ’’مقالات اقبال ‘‘ محولہ بالا ، ص ۲۰۱، ۲۰۲۔

۸ ۔           عبداللہ ، ڈاکٹر سید ، ’’مسائل اقبال ‘‘ ۔ مغربی پاکستان اردو اکیڈیمی ، لاہور ، ص ۱۳۳

۹۔            مسعود عالم ندوی (مُرتب) مکاتیبِ سلیمان(خط ۱۷۲۔الف) چراغ راہ ، لاہور ، ۱۹۵۴ء ، ص۱۸۶

۱۰۔          یوسف سلیم چشتی ، پروفیسر ، شرح اسرار خودی ، عشرت پبلشنگ ہائوس ، لاہور ۔ سن اشاعت ندارد ۔ ص ۱۸۸، ۱۸۹

۱۱۔          علامہ محمد اقبال ۔ فلسفہ عجم (مترجم میر حسن الدین) ۔ نفیس اکیڈمی کراچی ، چھٹا ایڈیشن ، ۱۹۸۴ئ۔  ص ۱۰۸تا ۱۱۰

۱۲۔          سید عبدالواحد معینی ، مقالات اقبال ،محولہ بالا ، ص ۱۹۵، ۱۹۶

۱۳ ۔         بحوالہ یوسف سلیم چشتی ، پروفیسر ۔ شرح اسرار خودی ۔ محولہ بالا ، ص ۳۴،۴۵،۴۶

۱۴۔          روح مکاتیب اقبال ۔ اقبال اکادمی ، لاہور ۔ ص ۱۵۰

۱۵ ۔         عطاء اللہ ،شیخ ۔ اقبال نامہ جلد دوم ۔ محولہ بالا ۔ ص ۳۴

۱۶ ۔         رفیع الدین ہاشمی (مرتب) خطوط اقبال خیابان ادب لاہور ۔ ۱۹۷۶ء ۔ ص ۱۱۷

۱۷ ۔         سید عبدالواحد معینی ۔ مقالات اقبال ۔ محولہ بالا ۔ ص ۲۰۵

۱۸ ۔         عطا اللہ ، شیخ ۔ اقبال نامہ ۔( جلد اوّل) محولہ بالا ، ص ۵۲ تا ۵۵

۱۹ ۔         فقیر سید وحید الدین ، روز گار فقیر (جلد دوم) آتش فشاں پبلیکیشنز، لاہور ۱۹۸۸ء ص، ۴۲۰

۲۰ ۔         بشیر احمد ڈار ، انوار اقبال ۔ اقبال اکادمی ، لاہور (طبع دوم) ۱۹۷۷ء ۔ ص ۱۸۱

۲۱ ۔         سید نذیر نیازی ، مکتوبات اقبال ، کراچی ۔ ۱۹۵۷ء ، ص ۱۰

۲۲ ۔         علامہ اقبال، تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ (ترجمہ نذیر نیازی) ۔ اقبال اکادمی لاہور ، ۱۹۸۹ء ۔ ص ۲۷۸،۲۷۹

۲۳ ۔         ایضاً ، ص ۲۸۳

۲۴ ۔         محمد سہیل عمر ، ابن عربی اور اقبال (مقالہ) مطبوعہ ماہنامہ سیارہ ، لاہور (۳۹) ۔ سالنامہ ۱۹۹۵ء ۔ ص ۳۸

۲۵۔         علامہ محمد اقبال ، فلسفہ عجم ۔ محولہ بالا ، ص ۱۰ ، دیباچہ

۲۶ ۔         مولانا عبدلمجید سالک ، ذکر اقبال ، بزم اقبال لاہور ، ۱۹۸۳ء ، ص ۱۸۲، ۱۸۳

۲۷ ۔         بشیر احمد ڈار ، انوار اقبال ، محولہ بالا ، ص ۱۷۷

۲۸ ۔         طاہر تونسوی ، اقبال اور سید سلیمان ندوی ،مکتبہ عالیہ ، لاہور ، ۱۹۷۷ء ، ص ۸۹ ، ۹۰

۲۹۔          عطااللہ ، شیخ ، اقبال نامہ ، (جلد اوّل) محولہ بالا ، ص ۴۴۳

۳۰ ۔         ڈاکٹر الف ۔ د ۔ نسیم ۔ مسئلہ وحدت الوجود اور اقبال ۔ مطبوعہ بزم اقبال لاہور ۔ ۱۹۹۲ء ، ص ۱۵۷،۱۵۸

۳۱ ۔         محمد شریف بقا ، اقبال اور تصوف ، جنگ پبلشرز لاہور ، اشاعت اوّل۱۹۹۱ء ، ص ۱۴۲

۳۲ ۔         ڈاکٹر خلیفہ عبدالحکیم ۔ فکراقبال ۔ بزم اقبال ، لاہور ، طبع چہارم ۔ ۱۹۸۶ء ۔ ص ۴۳۵

۳۳ ۔         سیّد واجد رضوی ، دانائے راز ، مقبول اکیڈیمی ، لاہور ، طبع دوم ، ۱۹۶۹ء ص ۱۴۴،۱۴۵

۳۴ ۔         پروفیسر محمد فرمان ، اقبال اور تصوف ، بزم اقبال ، لاہور ، طبع سوم ۱۹۸۴ء ص ۹۶

۳۵ ۔         ڈاکٹر سیّد عابد علی عابد ، تلمیحات اقبال ،  لاہور ، ۱۹۵۹ء ، ۱۵۱

۳۶ ۔         ڈاکٹر وزیر آغا ۔ تصورات عشق و خرد اقبال کی نظر میں ، اقبال اکادمی پاکستان ، لاہور ، طبع ثانی ، ص ۱۶۵۔۱۶۶

۳۷ ۔         ڈاکٹر الف ۔ د ۔ نسیم ۔ مسئلہ وحدت الوجود اور اقبال ۔ محولہ بالا ۔ ص ۱۶۲ ۔ ۱۶۳

۳۸ ۔         پروفیسر یوسف سلیم چشتی ، شرح ارمغان حجاز ، مطبوعہ عشرت پبلشنگ ہائوس ، لاہور ، ص۱۸

۳۹ ۔         ڈاکٹر الف ۔ د۔ نسیم ۔ مسئلہ وحدت الوجود اور اقبال ، محولہ بالا ، ص ۱۶۴

۴۰ ۔    

BOOK SHELF

         __         

Dervish Designs Online

IQBAL DEMYSTIFIED - Andriod and iOS