Menu

A+ A A-

 

تضمين بر شعر ملک قمی


مرشد کی يہ تعليم تھی اے مسلم شوريدہ سر
لازم ہے رہرو کے ليے دنيا ميں سامان سفر
بدلي زمانے کي ہوا ، ايسا تغير آگيا
تھے جو گراں قميت کبھی، اب ہيں متاع کس مخر
وہ شعلہ روشن ترا ظلمت گريزاں جس سے تھی
گھٹ کر ہوا مثل شرر تارے سے بھی کم نور تر
شيدائی غائب نہ رہ، ديوانۂ موجود ہو
غالب ہے اب اقوام پر معبود حاضر کا اثر
ممکن نہيں اس باغ ميں کوشش ہو بار آور تری
فرسودہ ہے پھندا ترا، زيرک ہے مرغ تيز پر
اس دور ميں تعليم ہے امراض ملت کی دوا
ہے خون فاسد کے ليے تعليم مثل نيشتر
رہبر کے ايما سے ہوا تعليم کا سودا مجھے
واجب ہے صحرا گرد پر تعميل فرمان خضر
ليکن نگاہ نکتہ بيں ديکھے زبوں بختی مری
''رفتم کہ خار از پا کشم ،محمل نہاں شد از نظر

يک لحظ غافل گشتم و صد سالہ را ہم دور شد

IIS Logo

Dervish Designs Online

IQBAL DEMYSTIFIED - Andriod and iOS