Logo

وقت کے لمحے ہیرے موتی

 


کتاب: اٹھو کہ وقت قیام آیا
مصنف: جناب ادریس آزاد

 

 

 

 

وقت کے لمحے ہیرے موتی

 

وقت کے دریا کا ہر دھارا

چاندی کی کانوں سے نکلا

قیمت میں انمول ستارہ

وقت کی ندیا کا ہرقطرہ

ایک زَمْرّد

ہیرا، موتی، جوھر، سونا

وقت کی قیمت کا اندازہ کون لگائے؟

وقت کے روشن رُخ پر غازہ کون لگائے؟

کون بتائے؟

وقت کی سچائی کی قیمت کون بتائے؟

 

جنابِ صدر! جلیس ِ مہرباں، رفیقِ معظم و سامعین عُظام!

گزرتے وقت کا ہرلمحہ کس قدر قیمتی ہوتا اِس بات کا اندازہ زمانہء موجود میں لگانا کسی بھی فرد کے لیے بہت مشکل ہوتاہے۔ خاص طور پر دورِ حاضر کے میٹریالسٹک ماحول میں یہ ناممکن ہے کہ ہم مادے سے ماوارا ہوکر وقت کی قدروقیمت کا ٹھیک ٹھیک تخمینہ لگا سکیں۔ لیکن جب وقت گزر جاتاہے تو پتہ چلتا ہے کہ ہم نے کس قدر قیمتی لمحات گنوا دیے۔

  وہ  ایک لمحہ جو آئینہ تھا بدل گیا ہے

میں اپنے عکاس سے نہ پوچھوں تو کس سے پوچھوں؟

میں اپنے نقاش سے نہ پوچھوں تو کس سے پوچھوں؟

کہاں گیا وہ خزانہء زندگی جسے وقت کہہ سکیں ہم

کہاں گیا وہ زمانہ ء عارضی جسے آج سہہ سکیں ہم

جو سہہ لیا وہ گزر گیا ہے

جو آرہا ہے وہ آنے والا کبھی نہ آئے تو کیا کرینگے

بس ایک صورت بچی ہے یعنی

یہ لمحہ ء وقت جو ابھی بھی گزررہا ہے

یہ مرررہا ہے

اسے بچا لو!

زمانِ ماضی کی کلفتوں سے اِسے نکالو!

تم اپنے حال اور بس فقط حال کو سنبھالو!

 

عزیزانِ من!

قرآنِ پاک میں ارشاد ہے۔

و کان الانسان عجولا

 یعنی انسان بہت جلد باز ہے۔یہ جلد بازی جو ہم ہمیشہ اپنا وقت بچانے کی خاطر کررہے ہوتے ہیں۔ ہمیشہ وقت کو ضائع کرنے کا سبب بنتی ہے۔ بڑے شہروں میں ہرشخص کو، ہروقت، ہرچیز سے دیر ہورہی ہے۔ ایک دوڑ ہے، ایک بھیڑ ہے، ایک ہجوم ہے جو ریس لگا رہا ہے۔ سرپٹ دوڑ رہا ہے۔ ہرشخص دوڑ رہا ہے۔ پیچھے مڑ کر دیکھنے کی کسی کو فرصت نہیں۔ ہرکوئی لیٹ ہورہاہے۔ لیکن کس بات سے؟ کیوں؟۔۔۔۔۔ یہ مہاماری کیوں ہے؟ یہ بھاگم بھاگ کیوں ہے؟ کیا مقصد ہے؟ کیا نکلے گا آخر میں؟

 

جنابِ والا

! اس بے مقصد ریس کا نتیجہ قنوطیت کی صورت میں نکلتاہے۔ یہ معاشرے کی رفتار نہیں یہ ضیائے وقت کی رفتار ہے۔ اسی کو وقت کا پہیہ کہتے ہیں، جو کبھی رُکتا نہیں۔ جو مسلسل گھومتا رہتا ہے۔ اور اس پہیے سے بنی گاڑی میں سوار اس عالمِ ارضی کے یہ شہری یعنی ہم لوگ کسی آبشار کے ساتھ سرکے بل گرتی ہوئی اُس چیونٹی جتنی اہمیت بھی نہیں رکھتے جو آبشار کے ایک قطرے سے بھی چھوٹی ہوتی ہے۔

 

جنابِ والا!

 لیکن یہ کم ہمتی محض اُس وقت تک ہے جب تک ہم ’ـ’والعصر‘‘ یعنی زمانے کی قدروقیمت سے ناوواقف ہیں۔ اگر ہم جان لیں کہ بطور انسان ہماری ذمہ داریاں خلیفۃاللہ فی الارض کی ہیں تو بخدا ہماری ذات کی چیونٹی پھیل کر جثہء جبریل میں تبدیل ہوجائے۔ ہماری سوچ کی وسعتیں ارض و سماء کو اپنی مُٹھی میں لیں۔ دریا ہمارے سامنے دستِ اطاعت دراز کردیں۔ پہاڑ ہمارے سامنے سرِ تسلیم خم کردیں۔ بشرطیکہ ہم جان لیں کہ وقت کتنا قیمتی ہے۔ بشرطیکہ ہم جان لیں کہ قطار وہاں سے شروع ہوتی جہاں ہم کھڑے ہیں۔ بشرطیکہ ہم جان لیں کہ ایک ایک لمحہ فی الاصل ایک ایک صدی کا نقیب ہوتاہے۔

اور والعصر کہ ہم

شیشۂ ساعت میں نہیں ہیںکہ گریں

اور والعصر کہ

ہم کون و مکاں میں نہیں رہتے کہ اُٹھیں

اور والعصر کہ

بددل ہیں زمانے سے مگر

ہم بھی اِک دور میں دل والے تھے

اور والعصر کہ

کہ ہروقت کھڑا رہتا ہوں

صبح میں

شام میں

دوپہر میں

سہ پہر میں ، مَیں

پیر مٹی بھی نہیں چھوڑتے

ہرلمحہ رُکا رہتا ہے ہرروز وہیں

اور والعصر کہ

تسلیم و رضا کافی نہیں

ورنہ بادل نہ گرجتے

نہ عیاں صورتِ ہم دوش ِ جہاں ہوپاتی

یعنی وہ یار عزازیل، حلیفِ فطرت

اور والعصر کہ

یہ سارا خسارہ ہے مرا

اور والعصرکہ

دل درد کا مارا ہے مرا

 

عزیزانِ من!

 وقت ضائع کردینے والے نہیں جانتے کہ وقت کو کوئی ضائع نہیں کرسکتا۔ ہم ضائع کرتے ہیں تو اپنے آپ کو۔ہمارے ہاتھوں سے نکل جاتاہے وقت۔اِسی کو تو مرُور ِ زمانی کہتے ہیں۔

مسافرکا سرِ منزل تو استقبال ہوتاہے

مگر رستے کو کیا ملتاہے جو پامال ہوتاہے

جنابِ صدر اور عزیزانِ من!

اللہ تعالیٰ آپ سب کو لمبی عمر عطافرمائے۔ لیکن سچ تو یہ ہے کہ لمبی عمر سے صرف بڑھاپا طویل ہوتاہے۔ جوانی سدا بہار نہیں۔ بچپن اور جوانی کا ایک ایک لمحہ قیمتی سمجھ کر گزاریے صاحب! کیونکہ بچپن اور جوانی بہت کم اورمخصوص وقت کے لیے ہمارے ہاتھ آتے ہیں۔ لمبی عمر پا لینے سے صرف ہمارا بڑھاپا لمبا ہوجاتاہے۔ کچھ کرنے، کوئی بڑاکام کرنے کی عمر ہے تو بچپن اور جوانی ہے۔

 

 

٭٭٭٭٭٭

 

Website Version 4.0 | Copyright © 2009-2016 International Iqbal Society (formerly DISNA). All rights reserved.