Logo

ہے نشان ِ منزل کہاں؟

 


کتاب: اٹھو کہ وقت قیام آیا
مصنف: جناب ادریس آزاد 

 ہے نشان ِ منزل کہاں؟

  

تم نے کْچلے کچھ اس طرح پیڑوں کے سر 

کوئی منزِل بچی اور نہ رستے بچے 

کس کے پیچھے چلوں سب نشاں مٹ گئے 

نقش اسلاف کے دب گئے دھول میں 

کوئی اقبال کوئی محمد علی 

اب نہیں آئے گا 

اب نہیں آئے گا کوئی قاسم نیا 

جس کو ناہید ِ ہندوستاں خط لکھے 

ہیں مرے عہد کے دو، سِرے اس طرح 

اک سرا عزم ِ ناہید اور دوسرا 

ڈاکٹر عافیہ ، دْختر ِ نیک خْو 

صدرِ عالی نظر! 

یوں مرا کارواں ، میرا زادِ سفر 

میری منزل ، مرے راستے کھو گئے 

 

وقارِ محفل ! جناب ِ صدر اور مہربان دوستو!…

 

نشانِ منزل تو اب بھی ہے، بتاؤں کیسے…؟

 

بزبانِ احمد ندیم قاسمی عرض کرونگا:۔

 

؎کچھ نہیں مانگتا شاہوں سے یہ شیدا تیرا 

اِس کی دولت ہے فقط نقشِ کفِ پا تیرا

 

کیا نقش ِ پائے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے لیے نشان ِ منزل نہیں…؟ مگر دُکھ بھرے دل کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہم زباں سے چاہے تسلیم کریں مگر ہم دل سے اس بات کو تسلیم نہیں کرتے۔ اور ہم میں سے جو دل و جان سے غلامی ء رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو منزلِ حقیقی مانتے ہیں،وہ بھی محتاج ِ پیشوائیت ہوکر… تن بہ تقدیر ہیں۔ اْنہیں بھی کعبے کے برہمنوں نے ، جو نشان ِ منزل دکھایا… وہ نقشِ کف ِ پائے رسول نہ تھا۔ اْس راستے پر بھی تفرقہ پرستی ، مسلک بازی اور ہوائے نفسی کی دھول تھی۔ اس لیے میری منزل کھو گئی…حضور ِ والا شان!…

 

؎ و ا ئے  نا کا می  متا عِ   کار و ا ں  جا تا  رہا 

اور کارواں کے دل سے احساسِ زیاں جاتا رہا

 

پچھلے تیس سالوں میں ہم نے جتنی نسلوں کی فصلیں تیار کیں ، اْن سب کو پرائیوٹائیزڈ ایجوکیشن کے ذریعے بھانت بھانت کے نصاب پڑھائے گئے، ایجوکیٹرز، فالکن، بیکن، مد ینہ الاطفال ، سٹی سکول، برٹش، امیریکن، آسٹریلَین اور نہ جانے کون کون سا نظام ِ تعلیم تھا جو اْن پر تھوپا گیا۔ اور وہ لوگ تیس سال کے ہوچکے ہیں جو 1980ءمیں پیدا ہوئے۔

 

جنابِ والا!…

 

پاکستان کی موجودہ حالت کی ذمہ داری سراسر اْن ارباب حکومت پر عائد ہوتی ہے جنہوں نے قومی نظام تعلیم کو غیروں کے ایماء  پر مسخ کیا اور ہمارا نشانِ منزل جان بوجھ کر ہمارے نظروں سے اوجھل کر دیا۔

 

عزیزانِ گرامی!…

 

آپ خود غور کریں کروڑوں انسانوں کا دیس پاکستان، قومی نظام تعلیم کو بھْلا کر تیس پینتیس سال تک چلتا رہا۔ پاک سر زمین شاد باد کی صدائیں نہ جانے کس جہا ںمیں کھو گئیں، اس پر مستزاد مذہبی نظام تعلیم تھا جو پہلے سے ہی پرائیویٹ تھا۔ تو پھر ہم کیسے اْمید کرسکتے ہیں کہ ہمارے لیے اب بھی کوئی منزل باقی ہوگی ، یا اب بھی کچھ ایسے راستے ہونگے جن پر چل کر ہم اپنی ڈوبتی ہوئی ناؤ کو کنارے لگا سکیں۔

 

جناب ِ والا!…

 

 وہ دن گئے جب خلیل میاں فاختہ اْڑایا کرتے تھے۔ آپ نشانِ منزل کی بات کرتے ہیں، میں کہتا ہوں یہاں سِرے سے پوری قوم ہی گْم ہوچکی ہے۔ اور یہ وہ گمشدگی نہیں جسے مسجد میں اعلان کرکے بازیاب کرا لیا جائیگا۔ حضور! آج ہم ایک ہجوم ہیں، ایک بھیڑ…اور یاد رکھیے گا میری بات کہ بھیڑ کے لیے کبھی نہ تو کوئی نشانِ منزل ہوتا ہے اور نہ ہی کبھی کوئی منزل۔

 

ہاں البتہ ! کبھی ہم میں دم تھا…ہاں بہت دم تھا۔ ہم کون ہیںبھلا؟

 

صفحہ ِ دہر سے باطل کو مٹایا ہم نے 

نوعِ انساں کو غلامی سے چھڑایا ہم نے 

تیرے کعبے کو جبینوں سے بسایا ہم نے 

ترے قران کو سینوں سے لگایا ہم نے

 

آج ہم صرف باطل گروہوں میں ہی نہیں بٹے، ہم بحیثیت قوم کسی پہچان کے حامل رہے ہی نہیں ہیں۔ ہاں اگر سوال صرف اس قدر ہو کہ نشان ِ منزل کون سا ہے اور کہاں ہے؟ یا کون سا تھا اور کہاں تھا…؟

 

تو جواب مشکل نہیں۔

 

 

 

؎وہ معزز تھے زمانے میں مسلماں ہو کر 

اور ہم خوار ہوئے تارکِ قرآں ہو کر

 

کیونکہ ہمیں صدیوں پہلے بتا دیا گیا تھا کہ:۔

 

’’وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰہ‘‘ 

’’اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو‘‘

 

اور اللہ کی رسی تھی دولت ِ قران۔ ہم حاملینِ قرآن ہیں تو لا محالہ ہمارا نشان ِ منزل آج بھی ہمارے سامنے ہے۔ بس شرط ہے تو صرف اتنی کہ:۔

 

’’لَا یَمَسُّہٗ اِلْاَ لْمُطَہَّرُوْن‘‘ 

’’اسے چھونا بھی مت جب تک تم مطہّر نہ ہو‘‘

 

 جب تک تم پاک نہ ہو۔ اور یہاں حال یہ ہے کہ کسی کا ذہن مادہ پرستی سے پاک نہیں۔یہاں ہم پیسے کے لیے ایمان تک کا سودا کرسکتے ہیں۔ اسی لیے یہاں ہر کسی کی اپنی الگ ڈیڑھ اینٹ کی مسجد ہے۔

 

جناب ِ والا!…

 

 ہمارا نشانِ منزل ہمیشہ سے ہمارے سامنے تھا مگر ہم نے ہی خود نظریں پھیر لیں۔ اور پس ِ پْشت ڈال دیا اْس پیغام کو جو کبھی ہمارے لیے آسمانوں سے اْترا تھا۔

 

ہمارا نشان ِ منزل… اْن لوگوں کے نقش ِ قدم میں ہے جو ہم سے پہلے منزل ِ مراد پر پہنچے :۔

 

؎وہ تو موجوں سے اْلجھ کر اپنی منزل پا گئے 

اور ہم ساحل پہ کھڑے غور فرماتے رہے

 

ہمارا نشان ِ منزل کہاں ہے…؟ بو علی سینا کی القانون میں؟ ابن خلدون کے مقدمہ میں؟ رازی اور فارابی کی نکتہ دانی میں؟ غزالی کے عرفان میں؟ مجدد الف ثانی کے آوازِ حق میں؟ شاہ ولی اللہ کی بلاغت میں؟ سرسید احمد خان کی بصیرت میں؟ مولانا شبلی نعمانی کی سیرت میں؟ یا علامہ اقبال کی تشکیل ِ جدید میں…؟۔

 

یہ سب تو آج بھی موجود ہیں۔ توپھر …؟ میں کہتا ہوں جب پاکستان بنایا ہی نیشنلزم کے خلاف گیا تھا، جب مقصد ہی ایک ایسے مدینہ کی تلاش تھا جو مہاجرین و انصار کو اسلامی تجربات کی روشنی میں ایک جنت نظیر معاشرے سے روشناس کرواتا اور دنیا بھر کے لیے مثال بنتا۔ تو پھر اس بات کا سوال ہی کیسے اْٹھایا گیا کہ ہمارا نشان ِ منزل کہاں ہے؟

 

 

 

٭٭٭٭٭

 

 

Website Version 4.0 | Copyright © 2009-2016 International Iqbal Society (formerly DISNA). All rights reserved.