Menu

A+ A A-

با ل جبر یل - رباعيات

Display # 
دلوں کو مرکز مہر و وفا کر
ترے شیشے میں مئے باقی نہیں ہے
قطعہ اقبال نے کل اہل خياباں کو سنايا
ترا تن روح سے ناآشنا ہے
حکيمی، نامسلمانی خودی کی
زمانے کی يہ گردش جاودانہ
کھلے جاتے ہيں اسرار نہانی
رگوں ميں وہ لہو باقی نہيں ہے
دم عارف نسيم صبح دم ہے
خدائی اہتمام خشک و تر ہے
خرد واقف نہيں ہے نيک و بد سے
يہ نکتہ ميں نے سيکھا بوالحسن سے
عطا اسلاف کا جذب دروں کر
کبھی تنہائی کوہ و دمن عشق
کبھی آوارہ و بے خانماں عشق
وہی اصل مکان و لامکاں ہے
کرم تيرا کہ بے جوہر نہيں ميں
تری دنيا جہان مرغ و ماہی
جوانوں کو مری آہ سحر دے
خرد سے راہرو روشن بصر ہے
چمن ميں رخت گل شبنم سے تر ہے
خودی کے زور سے دنيا پہ چھا جا
محبت کا جنوں باقی نہيں ہے
تراجوہر ہے نوری ، پاک ہے تو
ترے سينے ميں دم ہے ، دل نہيں ہے
سوار ناقہ و محمل نہيں ميں
وہ ميرا رونق محفل کہاں ہے
جمال عشق و مستی نے نوازی
نگہ الجھی ہوئی ہے رنگ و بو ميں
خودی کی جلوتوں ميں مصطفائی
نہ مومن ہے نہ مومن کی اميری
ترا انديشہ افلاکی نہيں ہے
ہر اک ذرے ميں ہے شايد مکيں دل
کوئی ديکھے تو ميری نے نوازی
عرب کے سوز ميں ساز عجم ہے
يقيں ، مثل خليل آتش نشينی
پريشاں کاروبار آشنائی
خودی کی خلوتوں ميں گم رہا ميں
مکانی ہوں کہ آزاد مکاں ہوں
ظلام بحر ميں کھو کر سنبھل جا
رہ و رسم حرم نا محرمانہ

IIS Logo

Dervish Designs Online

IQBAL DEMYSTIFIED - Andriod and iOS