Logo

کمپیوٹر اور آج کی دنیا

 


کتاب: اٹھو کہ وقت قیام آیا
مصنف: جناب ادریس آزاد

 

کمپیوٹر اور آج کی دنیا

 

پوری انسانی تاریخ میں

ٹوٹل تین ایجاد یں ہیں

پہیہ، انجن، کمپیوٹر

فطرت نے

ہم کو اک ایسی دنیا کے

 دروازے تک پہنچایا ہے

جس کو ’’کھل جا سِم سِم ‘‘ کہہ کر

انسانوں نے کھول لیا ہے

یہ کمپیوٹر کی دنیا ہے

علم و حکمت

تفہیماتِ حق و باطل

یعنی ہفت اقلیم کا حاصل

فن،حرفت، صنعت ، کمپیوٹر

دھن ، دولت ، شہرت ، کمپیوٹر

زر کمپیوٹر

عقل وخرد کا گھر کمپیوٹر

دنیا والو!

پوری انسانی تاریخ میں

ٹوٹل تین ایجاد یں ہیں

پہیہ، انجن، کمپیوٹر

 

جنابِ صدر ! جلیسِ مہربان، رفیقِ معظم وسامعین عظام!

انسان کے شعور کو نقطہء نور عطا ہونے سے پہلے تمام ترارتقائے حیاتِ ارضی دستِ قدرت میں تھا اور پھر جیسا کہ علامہ اقبالؒ نے کہا:۔

فطرت نہیں اگرچہ بے ذوق

جو اس سے نہ ہو سکا وہ تو کر

گویا مالک ِ جِن و اِنس نے یہ اختیار انسان کو تفویض کر دیا ۔ اور آج یہ کوکبِ جہاں تاب عالمِ فانی کو عالمِ لافانی بنانے کی جستجو میں اس قدر آگے نکل گیا ہے کہ استعارۃً نہیں بلکہ حقیقتاً اس کی ’’کیوریاسٹی‘‘ ارضِ مریخ کو چھو چکی ہے۔جب تک کمپیوٹر نہیں تھا ہم بال کی کھال اتارنے کےاہل نہیں تھے، ہم خون میں موجود قاتل جرثوموں کی ناپاک سرگرمیوں کا سراغ لگانے میں ناکام تھے ۔ ہم جسمِ انسانی میں ملفوف اعضائے جسمانی کی تصویر نہ لے سکتے تھے ۔ ہم اپنی ہی خطائوں کو شمار کرنے اور ان سے سبق سیکھنے کی صلاحیت نہ رکھتے تھے ۔ ایک تاریکی تھی ، ایک نابینائی تھی، ایک اندھیرا تھا ۔ ایک حبس تھا ۔

نہ حد سے گزرے ہوئے تجسس کی روشنی تھی

نہ برق رفتار زندگی تھی

نہ قاتلوں کی خبر

نہ مقتول کی نشانی

نہ بزمِ ہستی کی جاودانی

 

جنابِ والا !

یہ ایک ایجاد ہی نہیں ہے ۔ اگر میں جان کی امان پائوںتو عرض کردوں!

یہ لوحِ محفوظ ہے یقینا ً

کتابِ مرقوم ہے یقیناً

 

اسی میں مرقوم ہیں فرشتوں کی سب زبانیں

اسی میں لکھی ہیں سارے عالم کی داستانیں

 

میرے عزیزو! اور میرے محترم صدرِ محفل!

میں آپ کو بتائوں؟

علامہ اقبالؒ نے اپنے مخصوص شاعرانہ پیرائے میں ’’ید اللہ ِ فوق ایدیھم ‘‘ کا ترجمہ کس طرح کیا ؟۔

’’ہاتھ ہے اللہ کا بندئہ مؤمن کا ہاتھ‘‘

ثابت ہوا خدا نے خود انسان کو اپنی فطرت پر پیدا کیا ۔ قرآنِ پاک میں ارشاد ہے۔ فطرت اللہ التی فطرالناس علیھا۔ اللہ کی فطرت پر ہی انسانوں کی فطرت ہے ۔ تو پھر میں کیوں نہ کہوں کہ جب ہم کمپیوٹر کی مدد سے دُور سماوات میں تیرتے اجرام فلکی پر چلنے والی آندھیوں کی رفتاریں ماپ لیتے ہیں اور باریک بینی پر اتر آئیں تو ذرے ذرے کا سینے چیر کر اس کے کلیجے میں مسکراتی کائنات کا ماتھا چوم سکتے ہیں تو پھر میں کیوں نہ کہوں کہ :۔

ہم خدا کی آنکھ سے دیکھنے کے قابل ہوچکے ہیں۔

کمپیوٹر نے صرف انسان کی قوتِ باصرہ کو ہی ہزار گناہ نہیں کردیا بلکہ بطور ِ خاص انسان کی قوتِ متفکرہ یعنی سوچنے کی صلاحیت کو Infinityکے ساتھ ضرب دے دی ہے۔

          انسان کائنات کی حسین ترین مخلوق تو تھا ، کمپیوٹر نے اس کائنات کی طاقت ورترین مخلوق بھی بنادیا ۔ اور آج مجھے سمجھ آرہی ہے کہ اللہ نے کس طرح فرشتوں کو ہمارے حضور جھکا دیا ؟

وہ صرف ایک پل کا سجدہ نہ تھا ۔ آج مجھے سمجھ آئی کہ وہ سجدہ دائمی تھا ۔ دوستو! میں ایسا کہنے میں حق بجانب اس لیے ہوں کہ میری ایک Left clickنے مجھے حُکامِ عالم سے لے کر زمین پر موجود ہر بشر کے ساتھ براہِ راست منسلک کردیا ہے۔

 

عزیزانِ من!

 وہ دن دور نہیں جب روئے زمین سے Imperialism, Copitalism, Theoracy, اورمارشلزم کی اجارہ داری ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ختم ہوجائیگی ۔ اگر میری بات کا یقین نہ آئے تو لیبیاء کے انقلاب پر نظر کیجیے گا جو انٹر نیٹ کی جادو نگری سے برآمد ہوئے اور آناًفاناً کرنل قذافی جیسے اولوالعزم لیڈر کو عوام کی بے رحم عدالت میں دھکیل دیا ۔ لیبیا پر ہی کیا موقوف ، مصراور اردن کی حکومتیں دہل گئیں اور عربوں کو اپنی بادشاہتوں کے لالے پڑگئے۔ مؤرخ لکھے گا کہ اکیسویں صدی کے آغاز میں الٹرا سائونڈ مشینوں نے فطرت کے راز ہائے سربستہ سے پردے اٹھا دیے تھے۔ کوآرڈنیٹس نیوی گیٹرز نے آسمان کی اتنی بڑی آنکھ انسانی وجود کا حصہ بنادی تھی ۔ الیکڑانک ڈکشنریوں نے عالمگیر انسانی زبان کی بنیاد رکھ دی تھی۔ مضامین فطرت خاص طور پر بیالوجی ، فزکس ، کیمسٹری، جیالوجی، ایسٹرونومی اور آرکیا لوجی میں انسان نے اخیر کردی تھی …… اَخیر کردی تھی جنابِ والا!علوم کو ہزار چاند لگ گئے تو کرئہ ارض دانشِ برہانی سے جھلکنے لگا سب انسانوں نے خلائوں میں دیگر سیارے آباد کیے۔ بیسیوں آباد سیاروں پر اجناسِ ضرورت کی بہتات ہوئی اور انسانیت کا سب کچھ بدل گیا ۔ نہ بھوک رہی ، نہ بیماری اور نہ ہی موت ۔

کمپیوٹر انسان

کی وہ ایجاد ہے

جس کے بعد

بشر کو بھول گئے نقصان

ہوئے روشن جنگل میدان

 

صدرِ ذی وقار و مہربان!

آج کمپیوٹر پر ڈی این اے کےریسرزچرز ، نت نئی سبزیوں، پھلوں، پھولوں ، درختوں حتیٰ کہ حیوانات اور انسانوں کے کروموسومز اور جینز کی ادلہ بدلی سے ایسے ایسے جاندار پیدا کررہے ہیں جو کمپیوٹر سے پہلے صرف قدرت کا کام تھا لیکن اب انسان کا کام ہے۔

آج کمپیوٹر شریانوں میں جمع خون ، گردو ںمیں اٹکے پتھر، دماغ میں اُگی رسولیاں ، جگر کو کاٹتے وائرس اور ہڈیوں کے گودے میں چھپے مہلک بیماریوں کے جرثوموں کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر،پکڑپکڑ کر مار رہا ہے۔

آج کمپیوٹر کی مدد سے ہر انسان کی رسائی دنیا کی ہر کتاب تک ممکن ہوگئی ہے۔ وہ سوالات اور معمّے جن کاحل ڈھونڈنے کے لیے صرف چالیس سال پہلے انسان کا پِتہ پانی ہوجایا کرتا تھا ۔ اب پلک چھپکنے میں حل ہوجاتے ہیں۔ آج کمپیوٹر کی صورت میں انسان کے پاس شاہِ جنات حضرت سلیمان علیہ السلام کی طاقتیں آگئی ہیں۔ محفل میںموجود علماء و حکماء ذرا غور تو کریں۔ قرآن پاک نے ’’عادّین‘‘ کس کو پکارا ہے؟ گننے والے اور شمار کرنے والے کون لوگ ہیں؟ بخدا یہ بیّن الفاظ میں کمپیوٹنگ کرنے والوں کی بابت کہا گیا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو یومِ یبعثون کو اپنی اپنی ڈیوٹیوں پر موجود ہونگے۔ اور گن گر کر بتائیں گے کہ کون کتنے خمار میں تھا ۔

 

محتسب تسبیح کے دانوں پہ یہ گنتا رہا

کس نے پی ، کس نے نہ پی، کس کس کے آگے جام تھا

 

چلتی ہوں خوش رہیں۔

 

 

٭٭٭٭٭٭ 

کمپیوٹر اور آج کی دنیا

 

پوری انسانی تاریخ میں

ٹوٹل تین ایجاد یں ہیں

پہیہ، انجن، کمپیوٹر

فطرت نے

ہم کو اک ایسی دنیا کے

 دروازے تک پہنچایا ہے

جس کو ’’کھل جا سِم سِم ‘‘ کہہ کر

انسانوں نے کھول لیا ہے

یہ کمپیوٹر کی دنیا ہے

علم و حکمت

تفہیماتِ حق و باطل

یعنی ہفت اقلیم کا حاصل

فن،حرفت، صنعت ، کمپیوٹر

دھن ، دولت ، شہرت ، کمپیوٹر

زر کمپیوٹر

عقل وخرد کا گھر کمپیوٹر

دنیا والو!

پوری انسانی تاریخ میں

ٹوٹل تین ایجاد یں ہیں

پہیہ، انجن، کمپیوٹر

 

جنابِ صدر ! جلیسِ مہربان، رفیقِ معظم وسامعین عظام!

انسان کے شعور کو نقطہء نور عطا ہونے سے پہلے تمام ترارتقائے حیاتِ ارضی دستِ قدرت میں تھا اور پھر جیسا کہ علامہ اقبالؒ نے کہا:۔

فطرت نہیں اگرچہ بے ذوق

جو اس سے نہ ہو سکا وہ تو کر

گویا مالک ِ جِن و اِنس نے یہ اختیار انسان کو تفویض کر دیا ۔ اور آج یہ کوکبِ جہاں تاب عالمِ فانی کو عالمِ لافانی بنانے کی جستجو میں اس قدر آگے نکل گیا ہے کہ استعارۃً نہیں بلکہ حقیقتاً اس کی ’’کیوریاسٹی‘‘ ارضِ مریخ کو چھو چکی ہے۔جب تک کمپیوٹر نہیں تھا ہم بال کی کھال اتارنے کےاہل نہیں تھے، ہم خون میں موجود قاتل جرثوموں کی ناپاک سرگرمیوں کا سراغ لگانے میں ناکام تھے ۔ ہم جسمِ انسانی میں ملفوف اعضائے جسمانی کی تصویر نہ لے سکتے تھے ۔ ہم اپنی ہی خطائوں کو شمار کرنے اور ان سے سبق سیکھنے کی صلاحیت نہ رکھتے تھے ۔ ایک تاریکی تھی ، ایک نابینائی تھی، ایک اندھیرا تھا ۔ ایک حبس تھا ۔

نہ حد سے گزرے ہوئے تجسس کی روشنی تھی

نہ برق رفتار زندگی تھی

نہ قاتلوں کی خبر

نہ مقتول کی نشانی

نہ بزمِ ہستی کی جاودانی

 

جنابِ والا !

یہ ایک ایجاد ہی نہیں ہے ۔ اگر میں جان کی امان پائوںتو عرض کردوں!

یہ لوحِ محفوظ ہے یقینا ً

کتابِ مرقوم ہے یقیناً

 

اسی میں مرقوم ہیں فرشتوں کی سب زبانیں

اسی میں لکھی ہیں سارے عالم کی داستانیں

 

میرے عزیزو! اور میرے محترم صدرِ محفل!

میں آپ کو بتائوں؟

علامہ اقبالؒ نے اپنے مخصوص شاعرانہ پیرائے میں ’’ید اللہ ِ فوق ایدیھم ‘‘ کا ترجمہ کس طرح کیا ؟۔

’’ہاتھ ہے اللہ کا بندئہ مؤمن کا ہاتھ‘‘

ثابت ہوا خدا نے خود انسان کو اپنی فطرت پر پیدا کیا ۔ قرآنِ پاک میں ارشاد ہے۔ فطرت اللہ التی فطرالناس علیھا۔ اللہ کی فطرت پر ہی انسانوں کی فطرت ہے ۔ تو پھر میں کیوں نہ کہوں کہ جب ہم کمپیوٹر کی مدد سے دُور سماوات میں تیرتے اجرام فلکی پر چلنے والی آندھیوں کی رفتاریں ماپ لیتے ہیں اور باریک بینی پر اتر آئیں تو ذرے ذرے کا سینے چیر کر اس کے کلیجے میں مسکراتی کائنات کا ماتھا چوم سکتے ہیں تو پھر میں کیوں نہ کہوں کہ :۔

ہم خدا کی آنکھ سے دیکھنے کے قابل ہوچکے ہیں۔

کمپیوٹر نے صرف انسان کی قوتِ باصرہ کو ہی ہزار گناہ نہیں کردیا بلکہ بطور ِ خاص انسان کی قوتِ متفکرہ یعنی سوچنے کی صلاحیت کو Infinityکے ساتھ ضرب دے دی ہے۔

          انسان کائنات کی حسین ترین مخلوق تو تھا ، کمپیوٹر نے اس کائنات کی طاقت ورترین مخلوق بھی بنادیا ۔ اور آج مجھے سمجھ آرہی ہے کہ اللہ نے کس طرح فرشتوں کو ہمارے حضور جھکا دیا ؟

وہ صرف ایک پل کا سجدہ نہ تھا ۔ آج مجھے سمجھ آئی کہ وہ سجدہ دائمی تھا ۔ دوستو! میں ایسا کہنے میں حق بجانب اس لیے ہوں کہ میری ایک Left clickنے مجھے حُکامِ عالم سے لے کر زمین پر موجود ہر بشر کے ساتھ براہِ راست منسلک کردیا ہے۔

 

عزیزانِ من!

 وہ دن دور نہیں جب روئے زمین سے Imperialism, Copitalism, Theoracy, اورمارشلزم کی اجارہ داری ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ختم ہوجائیگی ۔ اگر میری بات کا یقین نہ آئے تو لیبیاء کے انقلاب پر نظر کیجیے گا جو انٹر نیٹ کی جادو نگری سے برآمد ہوئے اور آناًفاناً کرنل قذافی جیسے اولوالعزم لیڈر کو عوام کی بے رحم عدالت میں دھکیل دیا ۔ لیبیا پر ہی کیا موقوف ، مصراور اردن کی حکومتیں دہل گئیں اور عربوں کو اپنی بادشاہتوں کے لالے پڑگئے۔ مؤرخ لکھے گا کہ اکیسویں صدی کے آغاز میں الٹرا سائونڈ مشینوں نے فطرت کے راز ہائے سربستہ سے پردے اٹھا دیے تھے۔ کوآرڈنیٹس نیوی گیٹرز نے آسمان کی اتنی بڑی آنکھ انسانی وجود کا حصہ بنادی تھی ۔ الیکڑانک ڈکشنریوں نے عالمگیر انسانی زبان کی بنیاد رکھ دی تھی۔ مضامین فطرت خاص طور پر بیالوجی ، فزکس ، کیمسٹری، جیالوجی، ایسٹرونومی اور آرکیا لوجی میں انسان نے اخیر کردی تھی …… اَخیر کردی تھی جنابِ والا!علوم کو ہزار چاند لگ گئے تو کرئہ ارض دانشِ برہانی سے جھلکنے لگا سب انسانوں نے خلائوں میں دیگر سیارے آباد کیے۔ بیسیوں آباد سیاروں پر اجناسِ ضرورت کی بہتات ہوئی اور انسانیت کا سب کچھ بدل گیا ۔ نہ بھوک رہی ، نہ بیماری اور نہ ہی موت ۔

کمپیوٹر انسان

کی وہ ایجاد ہے

جس کے بعد

بشر کو بھول گئے نقصان

ہوئے روشن جنگل میدان

 

صدرِ ذی وقار و مہربان!

آج کمپیوٹر پر ڈی این اے کےریسرزچرز ، نت نئی سبزیوں، پھلوں، پھولوں ، درختوں حتیٰ کہ حیوانات اور انسانوں کے کروموسومز اور جینز کی ادلہ بدلی سے ایسے ایسے جاندار پیدا کررہے ہیں جو کمپیوٹر سے پہلے صرف قدرت کا کام تھا لیکن اب انسان کا کام ہے۔

آج کمپیوٹر شریانوں میں جمع خون ، گردو ںمیں اٹکے پتھر، دماغ میں اُگی رسولیاں ، جگر کو کاٹتے وائرس اور ہڈیوں کے گودے میں چھپے مہلک بیماریوں کے جرثوموں کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر،پکڑپکڑ کر مار رہا ہے۔

آج کمپیوٹر کی مدد سے ہر انسان کی رسائی دنیا کی ہر کتاب تک ممکن ہوگئی ہے۔ وہ سوالات اور معمّے جن کاحل ڈھونڈنے کے لیے صرف چالیس سال پہلے انسان کا پِتہ پانی ہوجایا کرتا تھا ۔ اب پلک چھپکنے میں حل ہوجاتے ہیں۔ آج کمپیوٹر کی صورت میں انسان کے پاس شاہِ جنات حضرت سلیمان علیہ السلام کی طاقتیں آگئی ہیں۔ محفل میںموجود علماء و حکماء ذرا غور تو کریں۔ قرآن پاک نے ’’عادّین‘‘ کس کو پکارا ہے؟ گننے والے اور شمار کرنے والے کون لوگ ہیں؟ بخدا یہ بیّن الفاظ میں کمپیوٹنگ کرنے والوں کی بابت کہا گیا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو یومِ یبعثون کو اپنی اپنی ڈیوٹیوں پر موجود ہونگے۔ اور گن گر کر بتائیں گے کہ کون کتنے خمار میں تھا ۔

 

محتسب تسبیح کے دانوں پہ یہ گنتا رہا

کس نے پی ، کس نے نہ پی، کس کس کے آگے جام تھا

 

چلتی ہوں خوش رہیں۔

 

٭٭٭٭٭٭

Website Version 4.0 | Copyright © 2009-2016 International Iqbal Society (formerly DISNA). All rights reserved.