Logo

میں بڑا ہوکے کیا بنوں گا؟

 


کتاب: اٹھو کہ وقت قیام آیا
مصنف: جناب ادریس آزاد

 

 

 

میں بڑا ہوکے کیا بنوں گا؟

(پرائمری لیول)

میرے دل کے کسی کونےمیںاک معصوم سا بچہ

بڑوں کی دیکھ کے دنیا بڑا ہونے سے ڈرتا ہے

 

جنابِ صدر ! اور میرے ہم مکتب ساتھیو!

آج مجھ سے پوچھا جا رہا ہے کہ میں بڑا ہو کے کیا بنوں گا ۔ میں اپنے ملک کے صدر سے لے کر ایک معمولی سپاہی یا کلرک تک جس منصب پر بھی نظر ڈالتا ہوں مجھے نہیں لگتا کہ ان میں سے کوئی منصب میرے لیے مثال ہے۔ تو پھر میں کیسے بتائوں کہ میں بڑا ہوکر کیا بنوں گا۔ میرے بڑوں نے میرے لیے جو راہیں چھوڑیں ہیں ۔ اُ ن پر چلتا ہوا میں یا تو رشوت خور افسر بن سکتا ہوں یا قاتل پولیس والا۔ جھوٹا سیاستدان یا ظالم سود خور، ذخیرہ اندوز تاجر یا کذّاب وکیل ، بے رحم ڈاکٹر یا چور انجینئر ، میں کیا بنوں؟…آپ سب مل کر مجھے بتائیں میں کیا بنوں؟

میرے سامنے موجود ہر راستہ دلدلوں کی طرف جاتا ہے ۔ مذہبی تعلیم حاصل کرتا ہوں تو ایک سفاک ، خودکش حملہ آوربنا دیا جاتا ہوں۔ دنیاوی تعلیم حاصل کرتا ہوں تو مادہ پرست لٹیرا بنادیا جاتا ہوں۔ میں پوچھتا ہوں آپ ہی بتائیں میں کہاں جائوں ؟ کون سی تعلیم حاصل کرں ؟ کس سکول میں پڑھوں ؟ جہاں بڑا ہو کر کچھ بن سکوں۔

جنابِ صدر!

میں وہ بد نصیب بچہ ہوں۔ جس کے سامنے نامعلوم منزلیں اور غیر محفوظ راستے ہیں۔ جس کے استاد شمسُ العلماء مولوی میر حسن جیسے نہیں کہ میں علامہ اقبالؒ بن سکوں۔جس کے سکول سر سید احمد خان کے سکول کے جیسے نہیں کہ میں محمد علی جوہرؒ بن سکوں۔ جس کے ماں باپ شاہ ولی اللہ ؒ جیسے نہیں کہ میں شاہ اسحٰق ؒ ، شاہ عبدالقادرؒ یا شاہ عبدالحق بن سکوں۔

تاحدِ نظر سلسلہء آہ و فغاں ہے

اک دل ہے کہ مجبورِ تماشائے جہاں ہے

اس دور کے معیار فضیلت کو تو دیکھو!

یہ شخص فلاں ابنِ فلاں ابنِ فلاں ہے

 

جنابِ صدر!

کہنے کو تو میں کہہ سکتا ہوں جیسے آج کی محفل میں دوسرے بچے کہہ رہے ہیں کہ میں بڑا ہو کر علامہ اقبالؒ بنوں گا یا قائد اعظم ، سر سید احمد خانؒ بنوں گا۔ یا مولانا محمد علی جوہر ۔ وکیل بنوں گا ، یا انجینئر ، ڈاکٹر بنوں گا یا افسر ، لیکن آپ بھی جانتے ہیں اور میں بھی جانتا ہوں کہ میری یہ بات اندرسے کھوکھلی ہوگی ۔ لیکن آپ بضد ہیں کہ میں بتائوں کہ میں بڑا ہوکر کیا بنوں گا ۔ تو مجھے کہنے دیجیے کہ اگر زندگی نے ساتھ دیا تو میں بڑ اہوکر ایک اچھا انسان بننے کی کوشش کروں گا ۔ ایک ایسا مسلمان جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے انسان محفوظ ہوں ۔ ایک ایسا فردِ معاشرہ جس کی وجہ سے سوسائٹی میں امن و سلامتی ہو۔ ایک ایسا خطیب جس کی زبان نفرت کے انگارے اگلنے کی بجائے محبت کے پھول نچھاور کرے۔ ایک ایسا وکیل جو عدل کا پرچم بلند کرے ۔ ایک ایسا ڈاکٹر جو مسیحا ہو ایک ایسا انجینئر جو سچا معمار ہو۔ ایک ایس استاد جو حسنِ عمل کی مثال ہو… خدا کی قسم!… آپ بڑوں کی دنیا دیکھ کر سارے منظر دھند لا جاتے ہیں کہ میں بڑا ہوکر کیا بنوں گا۔

عزیزانِ گرامی!

ہمارے بچوں کو بڑے بڑے عہدوں کے خواب مت دلائیے!پہلے س معاشرے کو ان افراد کی ضرورت ہے جو صرف اچھے شہری ہوں۔ چنانچہ میں اپنی تقریر کا لب لباب اس جملے میں پیش کرتا ہوں کہ

’’میں بڑا ہوکر ایک اچھا انسان بنوں گا ‘‘

وہ نغمہ سردیء خونِ غزل سرأکی دلیل

کہ جس کو سن کے ترا چہرہ تابناک نہیں

نوأ کو کرتا ہے موجِ نفس سے زہر آلود

وہ نیَ نواز کہ جس کا ضمیر پاک نہیں

پھرا میں مشرق و مغرب کے لالہ زاروں میں

کسی چمن میں گریبانِ لالہ چاک نہیں

 

٭٭٭٭٭٭

 

Website Version 4.0 | Copyright © 2009-2016 International Iqbal Society (formerly DISNA). All rights reserved.