Logo

توانائی کے وسائل

 

 

 


کتاب: اٹھو کہ وقت قیام آیا
مصنف: جناب ادریس آزاد

 

توانائی کے وسائل

 

؎  توانائی وسائل کے بنا ممکن نہیں ہوتی

وسائل کھا گئے سارے سیاستدان دھرتی  کے

نہ جانے کِس لیے لوگوں کی اوروں کے وسائل پر

نظر رہتی ہے، بن جاتے ہیں وہ شیطان دھرتی کے

 

جنابِ صدر،گرامی قدر اور میری مہربان دوستو!…

          ہمارے ملک میں توانائی کے وسائل کی کچھ کمی نہیں، ہم مالا مال ہیں قدرت کے خزانوں اور تحفوں سے مگر بظاہر ہمارا جو حال ہے ، اللہ نہ کرے کسی دشمن کا بھی ہو۔ توانائی کے بحران نے تمام ملک کو تقریباً دیوالیہ کر دیا ہے۔پانچ دریاؤں کے صوبہ پنجاب میں پانی اور بجلی کے بحران کی بات یوں لگتی ہے جیسے کوئی کہے کہ ’’صحرا میں ریت کا بحران‘‘۔ جب دیکھو! بجلی نہیں، جب دیکھو ! بجلی نہیں۔ خْدا کی پناہ! حد ہو گئی۔

خیر !… تو میرا مدعا یہ ہے کہ ہمارے پاس توانائی کے وسائل کی کمی نہیں… نہیں! بلکہ یہ جملہ درست نہیں، میں پھر سے بدل کر بولتی ہوں۔ ہمارے پاس توانائی کے وسائل کی بہتات ہے۔ چاروں موسموں کا حامل پاکستان، معدنیات سے لبریز پاکستان، دولت ِارضی کا گنجینہ، دولت ِ سماوی کا مدینہ، یہ پاکستان جو ہمارا گھرہے، جی ہاں! …دنیا کے اُن چند ملکوں میں سے ایک ہے جو معدنی ذخائر سے مالا مال ہے۔

 

صدرِ عالیجا!…

سب سے بڑی بات یہ ہے کہ ہم ایٹمی طاقت بھی ہیں۔ اگر نیوکلیئر انرجی کو بطور انرجی کے حاصل کیا جائے تو ہمارے سارے ’’دِلدّر ‘‘دور ہو سکتے ہیں۔ مگر نہ جانے کِس کی نظر لگ گئی میرے پیارے پاکستان کو ، کہ ہر چیز کی بہتات ہے مگر قیادت کا سخت فقدان ہونے کی وجہ سے ہم نہ جانے کتنے عشروں سے کشکول لیے دنیا کے ایک ایک ملک کے پاس جاتے اور ہر سال اپنے بچوں کا پیٹ پالنے کے لیے صدقہ اور خیرات مانگتے ہیں۔

قسم خُدا کی …اپنے حال پر سوائے اس کے کیا کہوں کہ:۔

؎ بدنصیبی زندگانی کی سہیلی کیوں ہوئی؟

زندگی اپنی بھکارن کی ہتھیلی کیوں ہوئی؟

حالانکہ توانائی کے وسائل ہمارے پاس بہ افراط ہیں۔ مگر لوڈشیڈنگ کی شدت نے کاروبارِحیات کی گاڑی کے پہیے کو جام کرکے، اشیائے ضرورت کی قیمتوں کو عام شہری کی پہنچ سے اتنا باہر کردیا ہے کہ:۔

؎  آدمی روٹیاں نہیں کھاتے

روٹیاں آدمی کو کھاتی ہیں

 

جی ہاں جناب صدر!…

توانائی کے وسائل اور کیاہوتے ہیں۔ دنیا کا سب سے بڑا ڈیم پاکستان کے پاس ہے۔ دنیا کا نواں بڑا دریا پاکستان کے پاس ہے۔ جو اُن پانچ دریاؤں کے علاوہ ہے جو کبھی پنجاب کی زینت تھے، اس پر مستزاد نیوکلئیر ڈیویلپمنٹ ہے۔

ہم خطہ منجمد جنوبی یا شمالی پر نہیں رہتے، نہ ہی ٹھنڈے یورپ کے باشندے ہیں جن کو اپنی جلد سانولی کرنے کے لیے ’’سَن باتھ‘‘ لینا پڑتا ہے۔ہم پاکستان میں رہتے ہیں ، جہاں سورج پوری آب و تاب سے سارا سال چمکتا ہے۔ ہمارے پاس سورج کی بے پناہ توانائی کا کھلا ذخیرہ ہے مگر حیرت ہے کہ آج تک ہمارے لوگ یا حکومت اِس پر توجہ نہیں دے سکے۔

؎ وائے ناکامی متاعِ کارواں جاتا رہا

اور کارواں کے دِل سے احساسِ زیاں جاتا رہا

 

عزیزانِ محفل!…

توانائی کے بغیر زندگی ممکن نہیں۔ فرد سے لے کر قوم تک سب توانائی کے محتاج ہیں۔ آج دنیا بھر میں جتنی جنگیں ہورہی ہیں ساری تیل کے حصول کی خاطر ہیں۔بقولِ شاعر:۔

؎  ساری جنگیں تیل کی ہیں

تیل کا ہے سب کیا دھرا

اور یقین مانیے ! ہمارے ملک کا اپنا تیل اتنا زیادہ ہے کہ اگر ہمار ا ادارہ او جی ڈی سی ایل یا وزارتِ پٹرولیم ایماندار ہوجائے تو ہم اپنی ملک کی ضرو رت اپنے ہی تیل اور گیس سے پوری کرسکتے ہیں۔

جنابِ صدر!…

ہمارے پاس بے پناہ کوئلہ ہے، جو توانائی کا سب سے قدیم لیکن سب سے مضبوط ذریعہ ہے۔ اگر ہم اپنے پاس موجود توانائی کے ذرائع پر نیک نیتی سے توجہ دیںتو یقین جانیے! ہمارا کشکول ٹوٹ جائے گا اور ہم بھی دُنیا میں با عزت قوم کے طور پر سراُٹھا کر جی سکیں گے۔

 

؎  آج بھی ہو جو براہیم کا ایماں پیدا

آگ کر سکتی ہے اندازِ گلستاں پیدا

جہاں تک دُنیا کی بڑھتی ہوئی آبادی کی وجہ سے توانائی کے ذخائر کے کم ہو جانے کی بات ہے، میں اتنا کہنا چاہوں گی کہ یہ توانائی کے بحران کا شوشہ سُود خور طبقے کا چھوڑا ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کی ضرورت سے زیادہ وسائل سے اِس سیارہء زمین کو مالا مال کیا ہے۔ بس مسئلہ صرف یہ ہے کہ آج کا انسان مادہ پرست ہوجانے کی وجہ سے بانٹ کر کھانے کا عادی ہی نہیں رہا۔ چند لوگوں کا قبضہ ہو جاتا ہے وسائل پر اور پھر کیسے ممکن ہے کہ ساری انسانی آبادی کو دو وقت کی پوری روٹی سے ہی نوازا جاسکے۔

کیا یہ سچ نہیں کہ ملک کی تمام شُوگرملیں اُن لوگوں کی ملکیت ہیں جو آج حکومت کے سربراہان ہیں…؟ تو پھر چینی کے بحران کا مسئلہ کیسے پیدا ہو گیا…؟ صرف اِس لیے کہ ہم میں مادہ پرستی اور دولت کی ہوس کُوٹ کُوٹ کر بھری ہوئی ہے ورنہ وہی حکمران جو چینی کی ملوں کے مالک ہیں اپنی ملوں کی چینی ، اپنے ہی عوام سے کیوں چھپاکر ذخیرہ اندوزی کرتے اور چینی کا بحران پیدا کرتے؟یقین جانیے! ہمارے گھرکی کُتیا چوروں کے ساتھ ملی ہوئی ہے۔

اسی کے ساتھ اجازت چاہتی ہوں۔

 

والسلام

٭٭٭٭٭٭٭




کتاب: اٹھو کہ وقت قیام آیا
مصنف: جناب ادریس آزاد

 

Website Version 4.0 | Copyright © 2009-2016 International Iqbal Society (formerly DISNA). All rights reserved.